نفس کے حملوں سے بچاؤ کے طریقے |
ہم نوٹ : |
|
ایمان کی بجلی کے منفی اور مثبت تار اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ کا ترجمہ ہے کہ نفس امارہ بالسوء ہے یعنی کثیر الامر بالسوء ہے اور جملۂ اسمیہ سے کیوں بیان فرمایا؟ تاکہ مرتے دم تک تم نفس سے بے خبر نہ رہو۔ جملۂ اسمیہ دوام پردلالت کرتا ہے یعنی نفس شہوت کے بُرے بُرے تقاضوں سے پریشان رکھے گا، یہ کش کرتا رہے گا آپ مکش رہیے، اِسی کشمکش کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا ہے کہ چند دن کشمکش میں رہو، اس کشمکش سے ایک نور پیدا ہوگا۔ دنیا میں پلس اور مائنس دوتاروں سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ تمہارے قلب میں ایمان کی بجلی، ایمان کی تجلی، ایمان کے چراغ روشن کرنے کے لیے تمہارے نفس میں جو بُر ے بُرے تقاضے پیدا کیے ہیں وہ پلس تار ہےیعنی تمہیں کھینچتے ہیں،مگر تم مائنس رہو یعنی تم ان کی نفی کرتے رہو لَااِلٰہَ سے ، یہ لَااِلٰہَ مائنس کا تار ہے جس سے تم ان باطل خداؤں کو دل سے نکالو، جن کے جسم سے پیشاب پاخانہ نکلتا ہے اور اگر یہ مرجائیں تو تم ان کو دیکھ نہیں سکتے، بلکہ مرے بھی نہیں صرف بوڑھا ہوجائے تو جیتے جی دنیا میں ہی ایسی شکل بگڑ جاتی ہے کہ حسین سے حسین باگڑ بلا معلوم ہوتا ہے، پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے اور عاشق صاحب کو پوچھنا پڑتا ہے کہ جناب کی تعریف؟ اب وہ عاشق صاحب کے چہرے پر جھاڑو مارے گا کہ آپ تومجھے مرنڈا پلاتے تھے اور انڈا کھلاتے تھے اور رات دن مجھ کو دیکھتے تھے، اب صورت بگڑگئی تو پوچھتے ہیں جناب کی تعریف؟ اِدھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی نہ اُن کی ہسٹری باقی نہ تیری مسٹری باقی پہلے میں’’میری مسٹری‘‘ کہتا تھا، لیکن میں نے سوچا کہ میری کیوں کہوں ، تیری کہوں، جن کی مسٹری ہے ان کو خطاب کروں۔ کلام اللہ کا اعجازِ بلاغت اچھا اس کے بعد سوال ہے کہ بِالسُّوۡٓءِ پر الف لام کیوں داخل کیا؟ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ یہ الف لام جنس کا ہے اور جنس وہ کلی ہے جو