نفس کے حملوں سے بچاؤ کے طریقے |
ہم نوٹ : |
|
نفس کااژدھا اور اسبابِ معصیت کل میں نے دو شعر نفس کی خصلت پر عرض کیے تھے۔ پہلا شعر یہ ہے ؎بھروسہ کچھ نہیں اس نفسِ امارہ کا اے زاہد فرشتہ بھی یہ ہوجائے تو اس سے بدگماں رہنا یعنی نفس پر اعتماد مت کرو، یہ اپنی فطرت کے اعتبار سے بچھو کے ڈنک اور کتے کی دُم کی طرح ہے۔ ایک شخص نے دس سال تک کتے کی دُم کو نلکی میں ڈال کر رکھا اور تیل بھی لگادیا کہ گرمی سے سیدھی ہوجائے گی، لیکن دس سال کے بعد جب نکالا تو ٹیڑھی ہی تھی ۔ یہی حال نفس کا ہے، لیکن تقویٰ اس کے بُرے تقاضوں ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ بُرے تقاضے اللہ نے ہمیں میٹیریل اور اجزا دیے ہیں تعمیرِتقویٰ کے لیے، جب نفس میں بُرے تقاضے پیدا ہوں آپ ان سے جہاد کریں یعنی ان پر عمل نہ کریں، اسی کا نام تقویٰ ہے۔ تقویٰ یہ نہیں ہے کہ بُرائی کا خیال ہی نہ آئے اور ہیجڑا ومخنث ہو جائے، خوب سمجھ لیجیے! اللہ تعالیٰ نے کافور کی گولیاں کھانے کا حکم نہیں دیا۔ بعض حضراتِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے درخواست کی کہ ہماری شادی نہیں ہوئی اور ہم مالی لحاظ سے کمزور بھی ہیں، لہٰذا ہمیں خصی ہوجانے کی اجازت دیجیے کہ ہم اپنے کو نامرد کردیں۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اجازت نہیں دی، کیوں کہ یہ تو جہاد سے بھاگنا ہوا۔ مخنث ہونا کوئی کمال نہیں۔ اچھا بھائی!آپ لوگ مخنث سمجھتے ہیں؟ ہیجڑوں کو مخنث کہتے ہیں۔ اس پر ایک لطیفہ یاد آیا ، غور سے سن لو ؎غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو مبادا پھر یہ وقت آئے نہ آئے جو سانس زندگی کی ہے اس کو غنیمت سمجھ لو پھر یہ باتیں کان میں پڑیں یا نہ پڑیں۔ بزرگوں کی بات اخترسنا رہا ہے، میری حقیقت کو نہ دیکھیے، نلکے کو مت دیکھیے، اس میں پانی کہاں سے آرہا ہے، اس پر غور کیجیے۔