نفس کے حملوں سے بچاؤ کے طریقے |
ہم نوٹ : |
|
انواع مختلف الحقائق پر مشتمل ہوتی ہے، یعنی گناہوں کی جتنی قسمیں ہیں وہ سب اس الف لام میں داخل ہیں،یعنی جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا اس وقت بھی گناہوں کی جتنی قسمیں تھیں اور قیامت تک جتنی قسمیں گناہوں کی پیدا ہوں گی وہ سب الف لام میں داخل ہیں، یعنی نفس تم کو ہر بُرائی کا حکم کرتا رہے گا، موجودہ جتنے گناہ ہیں اور آیندہ جو ہوں گے ان سب کا تمہیں تقاضا کرتا رہے گا، یہ الف لام جنس کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی بلاغت دیکھو، کیا شان ہے اس کی! جب قرآن نازل ہورہا تھا اس وقت ریڈیو، آڈیو کہاں تھے؟ ویڈیو اور فلمیں نہیں تھیں، سینما نہیں تھے، اتنے نئے نئے گناہ نہیں تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کی کیاشان ہے کہ الف لام جنس کا داخل کیا جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کاکلام ہے، جس میں ایسی بلاغت ہے کہ قیامت تک گناہوں کی جتنی بھی نئی نئی صورتیں ایجاد ہوں گی اور جتنے بھی انواع واقسام پیدا ہوں گی،یہ الف لام سب کا احاطہ کیے ہوئے ہے اِلَّامَارَحِمَ رَبِّیْ 11؎ مگر وہ لوگ جن پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہو وہی نفس کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ یہ آیت بھی نازل کی تاکہ معلوم ہو کہ ہر وقت یہ رحمت نہیں رہ سکتی اس کے لیے گڑ گڑا کر مانگنا پڑے گا۔ اس آیت میں مَا کیا ہے؟ یہ ظرفیہ، زمانیہ ، مصدریہ ہے۔ تو اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّیْ کا ترجمہ ہوا اَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت اس وقت تک رہے گی جب تک تم اللہ کی رحمت کے سائے میں رہو گے۔ فِیْ سے ظرفیہ بن گیا اور وقت سے زمانیہ بن گیا اور رَحِمَ ماضی رحمت سے مصدر بن گیا یعنی جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ رہے گا اس وقت تک تم بچے رہو گے۔ اس عنوان سے کیا نصیحت ہوئی کہ کسی شخص کو یہ ناز نہیں ہونا چاہیے ،اس لیے مَنْ نازل نہیں فرمایا جس کا ترجمہ ہوتا کہ ’’مگر وہ لوگ‘‘یعنی جن لوگوں پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے وہ گناہوں سے بچتے ہیں، مَنْ نازل نہیں کیا مَا نازل کیا ، جس کا ترجمہ ہوا کہ جب اللہ کی رحمت نازل ہوا سی وقت لوگ گناہوں سے بچ سکتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وقت بدلتا رہتا ہے، کسی وقت رحمت ہوگی کسی وقت نہیں ہوگی اور کسی وقت تمہارے دل کے حالات بدل سکتے ہیں۔ _____________________________________________ 11؎یوسف:53