نفس کے حملوں سے بچاؤ کے طریقے |
ہم نوٹ : |
|
ہم کو گناہوں کے وسوسے آتے ہیں اور وہ مایوس ہونے لگتے ہیں کہ کب تک یہ کمبخت ہم کو پریشان کرے گا؟ جملۂ اسمیہ سے دوام پر دلالت کرکے اللہ تعالیٰ نے نفس کی فطرت بیان کر دی ہے کہ یہ ہمیشہ کثیر الامر بالسوء رہے گا، بُرائیوں کی طرف تقاضا کرے گا۔ نفس کے خلاف جہاد کا طریقہ لیکن تقاضوں سے نہ گھبرانا، تقاضوں سے کچھ نہیں ہوتا جب تک تم ان تقاضوں پر عمل نہ کرو، لہٰذا اس کے حرام تقاضوں پر عمل نہ کرنا۔ اگر روزہ ہے اور آپ کا سو مرتبہ پانی پینے کا دل چاہا، شدید تقاضا ہوا، لیکن آپ نے پیا نہیں تو بتائیے! آپ کا روزہ ہے یا نہیں؟لہٰذا جس طرح پیاس کا تقاضا ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اسی طرح بُرے تقاضوں سے تقویٰ نہیں ٹوٹتا جب تک ان تقاضوں پر عمل نہ کیا جائے۔ جس کو روزہ میں سو مرتبہ پانی پینے کا تقاضا ہوا اور اس نے نہیں پیا تو اس کے روزے کا اجر زیادہ ہوجائے گا۔ ایسے ہی ہزار مرتبہ دل میں گناہ کا تقاضا ہو مثلاً بدنظری کا یا کسی اور گناہ کا تو اس سے اجراور بڑھتا ہے اور تقاضے سے تقویٰ نہیں ٹوٹتا جب تک کہ اس پر عمل نہ کیا جائے۔ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانااشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ ٗ نے کیا عمدہ مثال دی کہ تقویٰ سے رہنا اتنا ہی آسان ہے جتنا باوضو رہنا آسان ہے۔ وضو میں کیا ہوتا ہے؟ اگر وضو ٹوٹ گیا تو آپ دوبارہ وضو کر لیتے ہیں، اسی طرح اگر تقویٰ ٹوٹ جائے تو توبہ کرکے دوبارہ تقویٰ کے لیے کمر باندھ لیجیے کہ یااللہ! مجھ سے نالائقی ہوئی، آیندہ آپ کو ناراض نہیں کروں گا اور گناہ سے پہلے نفس سے پوری لڑائی لڑیے، پورا مقابلہ کیجیے، جہاد کا حق ادا کیجیے،یہ نہیں کہ نفس کا ن پکڑ کر تمہیں گدھے کی طرح جدھر چاہے لے جارہا ہے اور تم پیچھے پیچھے چلے جارہے ہو۔ جو شخص نفس سے جہاد نہیں کرتا وہ مجرم ہے ، اس سے مؤاخذہ ہوگا کہ تم نے گناہ سے پہلے نفس سے لڑائی کیوں نہیں کی۔ ایک ہے گٹر میں گرنا، ایک ہے اپنے کو گٹر میں گرانا، ایک ہے پھسلنا ، ایک ہے پھسلانا، ایک ہے گناہ ہوجانا اور ایک ہے جان بوجھ کر گناہ کرنا، دونوں میں فرق ہے۔