مقام اولیاء صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
گئی تو اب کارِ نبوت کو انجام نہیں دے سکتا، خود تو فدا ہوگیا مگر کارِ نبوت کو صدیق انجام دیتا ہے۔ تو نبی صدیق سے افضل اور صدیق شہدا اور صالحین سے افضل ہوتا ہے۔ جانِ پاکِ نبوت میں صدیقِ اکبر کی محبت اور خود نبوت کی جان عاشقِ صدیقیت ہوتی ہے۔ سن لو اس کو، اس کی دلیل پیش کرتا ہوں۔ غزوۂ احد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شوقِ شہادت میں اپنی تلوار کو میان سے نکالا اور کافروں پر جھپٹے کہ اے کافرو! آج تمہیں قتل کرکے چھوڑوں گا یا صدیق شہید ہوگا، کیوں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا خونِ نبوت سر سے پیر تک بہہ رہا ہے اور صدیق کی جانِ عاشق اس بات سے قاصر ہے کہ اپنے نبی کا خون بہتا ہوا دیکھے،لیکن جب وہ شوقِ شہادت میں جھپٹے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی جھپٹے، وہ جھپٹے کافروں پر اور نبی جھپٹے صدیق پر کہ خبردار! شِمْ سَیْفَکَ اپنی تلوار کو میان میں رکھ لے اے ابوبکر صدیق! لَا تُفْجِعْنَا بِنَفْسِکَ مجھے اپنی جدائی سے غمگین مت کرو۔ معلوم ہوا کہ جانِ نبی مشتاق تھی حیاتِ صدیق کی، لہٰذا یاد رکھو کہ بعض بندے زندہ ہیں مگر شہیدوں سے افضل ہیں اگر صدیقین کے درجے پر ہیں۔ یہ شرط لگادی جس سے غلط فہمی کا اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ صدیق زندہ شہید ہوتا ہے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مصرعہ بھی یاد آگیا کہ ؎اے بسا زندہ شہیدِ معتمد اے دنیا والو! بہت سے شہید ہیں اور زندہ ہیں، مگر باوجود گردن نہ کٹنے کے ان کی شہادت معتمد ہے، کیوں کہ وہ اللہ کے حکم کی تلوار سے نفس کی گردن کاٹتے رہتے ہیں، ان کا خونِ شہادت نظر نہیں آتا لیکن اندر اندر دل کا خون کرتے رہتے ہیں، اس لیے ان کی شہادت معتبر ہے، وہ زندہ شہید ہیں ؎کسی کے زندہ شہید ہیں ہم نہیں یہ حسرت کہ سر نہیں ہے ہمیں تو ہے اس سے بڑھ کے رونا کہ دل نہیں ہے جگر نہیں ہے