مقام اولیاء صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
کردے۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ دنیا تو ہم دے دیں مگر آخرت کیسے دیں؟ میں نے کہا کہ اس کا جواب سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھو، جنت کو درجۂ ثانوی رکھو تو گویا تم نے آخرت بھی دے دی۔ حدیثِ پاک ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ 14؎اے اللہ! تو مجھ سے راضی ہوجا اور تجھ سے جنت بھی مانگتا ہوں۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی درخواست میں درجۂ اوّلیت اللہ کی رضا رکھ کر اور درجۂ ثانویت میں جنت کو رکھ کر اپنے عشقِ نبوت کا مقام اُمت کو بتادیا کہ دیکھو نبی کیسا عاشق ہوتا ہے؟ آج اگر میرے اکابر ہوتے تو بتائیے کس قدر خوش ہوتے! مگر اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ جب چاہے اور جو چاہے ؎وہ مالک ہے جہاں چاہے تجلی اپنی دکھلائے نہیں مخصوص ہے اس کی تجلی طورِ سینا سے بہت روئیں گے کرکے یاد اہلِ مے کدہ مجھ کو شرابِ دردِ دل پی کر ہمارے جام و مینا سے صدیق کی یہ تین تعریفیں ہوگئیں۔ صدیق کی چوتھی تعریف اب چوتھی تعریف جو اختر کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ صدیق وہ ولی اللہ ہوتا ہے جو اپنی زندگی کی ہر سانس کو اللہ تعالیٰ پر فدا کرتا ہے اور اپنی زندگی کی ایک سانس بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اللہ کے غضب وقہر کے اعمال سے لذتِ حرام کو کشید، چشید اور دید وشنید نہیں کرتا۔ وہ معصوم نہیں ہوتا، لیکن اگر کبھی صدورِ خطا ہوجائے تو اتنا روتا ہے کہ فرشتے بھی لرزہ براندام ہوجاتے ہیں کہ اللہ کو دیکھے بغیر یہ بندے سجدے میں اپنے گناہوں کو یاد کرکے کتنا رو رہے ہیں؟ اور آہ وزاری سے،استغفار سے بے قراری کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کا _____________________________________________ 14؎مسند الامام الشافعی :123