مقام اولیاء صدیقین |
ہم نوٹ : |
|
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ شرم تم کو مگر نہیں آتی حیا کی تعریف حالاں کہ شرم کی حقیقت یہ تھی کہ گناہوں سے بچتا، یہ بے غیرت اسی وقت ہوا جب اس نے شرم کا پردہ چاک کیا، گناہ ہمیشہ بے حیائی سے ہوتا ہے، اس لیے محدثِ عظیم ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حیا کی حقیقت کیا ہے؟ یہ بین الاقوامی تعریف سے افضل ہے جو ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں کی ہے: فَاِنَّ حَقِیْقَۃَ الْحَیَاءِ اَنَّ مَوْلَاکَ لَا یَرَاکَ حَیْثُ نَھَاکَ 7؎حیا کی حقیقت یہ ہے کہ تیرا مولیٰ تجھ کو اس حالت میں نہ دیکھے کہ تو اس کو ناراض کررہا ہو۔ سب سے بڑی بے حیائی اور بے غیرتی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اپنی نافرمانی کی حالت میں دیکھیں اور وہ ہر وقت دیکھ رہے ہیں۔ تقویٰ کی دائمی فرضیت اور اس کی وجہ ایک آیت تو صریح ہے اَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِاَنَّ اللہَ یَرٰی 8؎ کیا بندہ نہیں جانتا کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے حالاً استقبالاً۔ ماضی نہیں نازل کیا کہ کبھی دیکھا تھا۔ وہ ہر وقت دیکھ رہا ہے اور ہر وقت دیکھتا رہے گا،لہٰذا تقویٰ فرض ہے حالاً بھی اور استقبالاً بھی، حال میں بھی تقویٰ فرض ہے اور مستقبل میں بھی تقویٰ فرض ہے، مگر ایک آیت کا استدلال اور پیش کرتا ہوں جو زندگی میں آپ پہلی دفعہ سنیں گے۔ تمہارا باپ ساتھ ہو تو گناہ کروگے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ 9؎ _____________________________________________ 7؎مرقاۃ المفاتیح:175/1 ،کتاب الایمان، دارالکتب العلمیۃ،بیروت 8؎العلق: 14 9؎الحدید:4