تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
یااللہ! یہ شیر جو بہادری میں مشہور ہے یہ بھی اپنی بیوی کا غلام بنا ہوا ہے۔ کمال ہے کہ سارا غرانا اور شیریت ختم، اس کے پیچھے پیچھے چل رہاہے، جہاں شیرنی جاکر بیٹھی یہ بھی وہاں جاکر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ سبق حاصل کرو۔ بیوی کی محبت شیروں سے سیکھ لو۔ میں بڑے بڑے جلسوں میں کہتا ہوں کہ اے مسلمان بھائیو! آپ شیر بننا چاہتے ہیں یا شیرنی؟ سب کہتے ہیں شیر۔ میں کہتا ہوں کہ شیر کےداڑھی ہوتی ہے؟ سب کہتے ہیں ہاں ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بس تم بھی داڑھی رکھ لو، شیر محمد نام رکھنے سے شیر نہیں ہوگے، داڑھی رکھنے سے شیر بنو گے۔ تو میں حضرت مفتی محمد حسن امرتسری رحمۃاللہ علیہ کی حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃاللہ علیہ سے بیعت کا واقعہ پیش کررہا تھا۔ اگر یہاں تفسیر کا بیان رہ جائے گا تو آیندہ بیان کروں گا ان شاء اللہ۔ اس وقت تو جومضمون دل میں آرہا ہے اسی کو بیان کروں گا، کیوں کہ دُعا کرکے بیٹھتا ہوں ؎بدرد و صاف ترا حکم نیست دم درکش کہ انچہ ساقی ماریخت عین الطاف است کس کو حق ہے کہ وہ اللہ سے کہے کہ مجھے صاف والی پلاؤ یا تلچھٹ والی۔ جو میرا ساقی مجھے دے گا وہی پلاؤں گا ؎کہ انچہ ساقی ماریخت عین الطاف است مجھے میرا اللہ جو بھیک دے گا میں وہی پیش کروں گا۔ حضرت مفتی محمد حسن امرتسری رحمۃاللہ علیہ دیو بندتشریف لے گئے اور دیو بند میں دورۂ حدیث کیا۔ چالیس خط لکھے۔ دو شرطیں پوری ہوگئیں، پھر اپنے شاگرد سے جس کو دورہ پڑھایا تھا اُسی سے تجوید و قرأت سیکھی ؎ایں چنیں شیخے گدائے کو بہ کو عشق آمد لا ابالی فاتقوا عشق اس کو کہتے ہیں کہ اتنا بڑا شیخ، اتنا بڑا عالم، اتنا بڑا مفتی اپنے شاگرد سے قرأت کی مشق کررہا ہے۔پھر سند لی کہ بیٹا مجھے کچھ لکھ دو،کیوں کہ مجھے بیعت ہونا ہے۔ شاگرد نے لکھ دیا کہ حضرت تجوید و قرأت میں اوّل نمبر آگئے ہیں۔ تین شرطیں ہوگئیں۔