تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
بس ایک بجلی سی پہلے کوندی پھر اُس کے آگے خبر نہیں ہے مگر جو پہلو کو دیکھتا ہوں تو دل نہیں ہے جگر نہیں ہے زندگی زندگی سے رہی بے خبر ہم نے دیکھے ہیں ایسے بھی اہلِ نظر ہم نے ایسے اللہ والوں کو دیکھا ہے کہ زندگی بھر زندگی سے بے خبر رہے، اُن کو ہوش نہیں تھا کہ دنیا کہاں ہے ؎یہاں تو ایک پیغامِ جنوں پہنچا ہے مستوں کو ان ہی سے پوچھیے دنیا کو جو دنیا سمجھتے ہیں حضرت مفتی محمد حسن امرتسری رحمۃاللہ علیہ کی میں نے زیارت کی ہے، میں اُن کے جنازے میں بھی شریک تھا، اُن کی نمازِ جنازہ حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃاللہ علیہ نے پڑھائی۔ حضرت مفتی صاحب کی ایک خاص بات بتاتا ہوں۔ ایک مرتبہ آپ نے حضرت حکیم الامت رحمۃاللہ علیہ سے عرض کیا کہ آج گھر سے خط آیا ہے، سب بچے بیمار ہیں، بیوی بھی بہت بیمار ہے، اس کی وجہ سے میں بہت تشویش میں ہوں۔ حضرت حکیم الامت رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ مفتی صاحب! جب مومن کا اعتقاد مقدر پر ہے تو پھر اس کو مکدر ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ نوٹ کرلیں یہ جامعہ کے بانی کی باتیں ہیں۔ سبحان اللہ! مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ اُسی وقت دل میں برف کی طرح ٹھنڈک آگئی، تسلیم و رضا کی کیفیت طاری ہوگئی۔سارے غم کو یہ تسلیم و رضا غمِ جاناں بنادیتا ہے ؎آلام روزگار کو آساں بنا دیا جو غم ملا اسے غمِ جاناں بنا دیا (جامع عرض کرتا ہے کہ مجلس میں ایک صاحب آنکھیں بند کیے ہوئے اور سر جھکائے بیٹھے تھے۔ حضرت والا کی اُن پر نظر پڑی تو اُن سے تنبیہاً باندازِ مزاح فرمایا) دیکھیے آنکھ بند کرکے مجھ پر توجہ نہ ڈالیے،کبھی توجہ زیادہ تیز ہوجاتی ہے جس سے بے ہوش ہوجانے کا خطرہ ہوجاتا