تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
وصورت بھی بگاڑ دی۔ پھر ایک دن پنساری آیا اور اس آملہ کے منہ پر جھاڑو لگائی اور بورے میں بھر کر لے گیا اورکوٹ پیس کر قبض کو دفع کرنے والا سفوف بنادیا۔ مربی کی تربیت سے بچنے کی یہ سزا ملی کہ پاخانہ دھکیلنے کی خدمت سپرد ہوئی۔ اسی طرح جو لوگ کسی اللہ والے سے اپنا تزکیہ کراکے صاحبِ نسبت ہوگئے، اُن کو یہ مقام نصیب ہوا کہ ان کی صحبت سے ہزاروں مردہ دل زندہ ہوگئے اور بڑے بڑے علمائے کرام و مفتیانِ عظام ان کی برکت سے اللہ والے بن گئے۔ اس کے برعکس عوام کیا جن خواص نے بھی اللہ والوں کی غلامی کو پسند نہیں کیا اور اپنی تربیت نہیں کرائی، ان کا علم و فضل نہ ان کے لیے نافع ہوا نہ اُمت کے لیے۔ ان کے علم و عمل میں فاصلے رہے اور ان سے دین کا کام بھی نہیں لیا گیا اور نہ ان کو دنیا میں عزت ملی۔اس لیے جو کہتا ہے کہ میں پیری مریدی کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا، تو اختر کہتا ہے کہ جو سچی پیری مریدی کو چکرسمجھتا ہے میں بھی اس کے چکر میں نہیں آتا۔ جاؤ اپنا راستہ لو ؎جائے جسے مجذوب نہ زاہد نظر آئے بھائے نہ جسے رِند وہ پھر کیوں ادھر آئے فرزانہ جسے بننا ہو جائے وہ کہیں اور دیوانہ جسے بننا ہو بس وہ اِدھر آئے ایک شخص نے حاجی امداد اللہ صاحب سے عرض کیا کہ حضرت! میرا لڑکا کوئی کام نہیں کرتا، غفلت کا مارا ہے، اس کو اپنے پاس رکھ لیجیے، اس کو اپنے جیسا بنا دیجیے۔ حضرت حاجی صاحب نے اس کو اپنے یہاں ٹھہرالیا۔ حضرت حاجی صاحب کی صحبت نے اُس کو اشکبار بنادیا، اللہ کی محبت میں بے قرار بنادیا، اشراق و تہجد میں اسے مشغول فرمادیا۔ اب جب اس لڑکے کا باپ اس کو لینے آیا، تو حاجی صاحب سے پوچھا کہ میرا بچہ انسان بن گیا؟ فرمایا ہاں اللہ نے تیرے بچے پر فضل فرمادیا، جاؤ اس کو لے جاؤ۔ اب جب گیا تو بجائے تین بجے رات کو کھیتوں میں پانی دینے کے وہ تہجد پڑھ رہا ہے، سجدہ میں رو رہا ہے۔ اس نے کہا کہ حاجی صاحب نے تو اسے اور بگاڑ دیا، اب تو یہ کھیتی باڑی کے کام کا بھی نہیں رہا۔ بڑے غصے میں حضرت حاجی صاحب رحمۃاللہ علیہ کے پاس گیا اور کہا کہ میں تو اپنے لڑکے کو اس لیے لایا تھا کہ یہ کھیتی باڑی کا کام زیادہ کرے گا،