یَجِدُ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ فِیْ قَلْبِہٖ10؎
جہاں جہاں حلاوت کا ذکر ہے وہاں یَجِدُ کا لفظ آیا ہے،یَشْعُرُ وَیَحِسُّ نہیں فرمایا کہ وہ محسوس کرے گا یا شعور کرلے گا،اَدْرَکَ یُدْرِکُ بھی استعمال نہیں کیا، یَجِدُ فرمایا یعنی وہ واجد ہوگا اور حلاوتِ ایمانی اس کے قلب میں موجود ہوگی۔ سبحان اللہ ؎
یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لو شمع محفل کی
پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی
اللہ تعالیٰ دل میں خاص قُرب کی لذت ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے ساری دنیا کی طرف التفات نہیں ہوتا۔ حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
چو حافظ گشت بے خود کے شمارد
بیک جَو مملکت کاؤس و کے را
حق تعالیٰ کی محبت کی خوشبو جب میں محسوس کرتا ہوں، جب حافظ اللہ کی محبت میں مست ہوکر اللہ اللہ کرتا ہے، تو اتنا مزہ آتا ہے کہ کاؤس اور کے کی سلطنتوں کو ایک جَو کے عوض خریدنے کے لیے تیار نہیں۔ سبحان اللہ! اللہ ہی جانتے ہیں کہ کیا دیتے ہیں اور اولیاء اللہ ہی جانتے ہیں کہ کیا پاتے ہیں، دوسرا کوئی نہیں جانتا؎
تم سا کوئی ہمدم کوئی دَمساز نہیں ہے
باتیں تو ہیں ہر دَم مگر آواز نہیں ہے
ہم تم ہی بس آگاہ ہیں اس ربطِ خفی سے
معلوم کسی اور کو یہ راز نہیں ہے
استقامت کے معنیٰ
تو میں عرض کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللہُ جن
_____________________________________________
10؎ کنزالعمال:328/5 (13068)، فرع فی مقدمات الزنا والخلوۃ ،مؤسَّسَۃُ الرسالۃ