خود نہیں بگڑتے بلکہ کئی کئی پشت تک بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ کسی ولی اللہ کو ستانے پر صرف ستانے والا ہی نہیں تباہ ہوتا، بلکہ اس کی کئی پشتوں پر تباہی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دس پشتوں تک رحمت کا نزول
اور اللہ والوں کا ساتھ دینے والوں پر اور جو اللہ والی زندگی گزارتے ہیں، صرف ان پر ہی خدا کی رحمت کی بارش نہیں برستی، ان کی دس پشتوں تک اللہ تعالیٰ رحمت کی بارش برسادیتا ہے کہ یہ میرے غلاموں کے غلام ہیں، ان کی ذُرّیات اور اولاد ہیں۔
قرآن شریف میں یہ واقعہ ہے کہ یتیم بچوں کی جو دیوارگررہی تھی جس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا، حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اے خضر! یہ یتیم بندے ہیں، ان کی دیوار کو اُٹھادو، کیوں کہ اس کے نیچے ان کے باپ کا خزانہ ہے جو میرا وفادار تھا، جس نے نفس وشیطان کا مقابلہ کرکے میری مرضی اور خوشی کو ترجیح دی تھی، جس نے مجھ کو راضی کرنے کے لیے اپنی تمام خوشیوں کو آگ لگادی تھی۔
نفس کی ناجائز اور حرام خوشیاں، نافرمانی کی خوشیاں، سینما، ٹی وی، وی سی آر دیکھنے کی خوشیاں،عورتوں کو بُری نظر سے دیکھنے کی خوشیاں، تاش کھیلنے کی خوشیاں، چرس ونشہ کی خوشیاں، دنیا میں جتنی بھی حرام خوشیاں ہیں سب کو اللہ والا اللہ کی خوشی کے لیے آگ لگادیتا ہے اور کیسے لگاتا ہے؎
خوشی کو آگ لگادی خوشی خوشی میں نے
خوشا نصیب کسی کا ملا مجھے غم ہے
تب اس پر اللہ فضل فرماتے ہیں۔ علامہ آلوسی سید محمود بغدادی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میںکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے ان دو یتیم بندوں کا باپ صالح تھا، اس کی صالحیت ووفاداری پر اللہ کا کرم ہوا، تو صرف اسی پر نہیں ہوا اور اس کی صرف ایک ہی پشت پر نہیں ہوا، بلکہ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ کَانَ الْاَبَ السَّابِعَ یہ ساتواں باپ تھا، سات باپ گزر چکے مگر ساتویں پشت پر بھی فضل ہورہا