یہ تفسیر کی ہے کہ یہ ذریت کیا ہے؟ یہ ان کی اولاد ہے۔ کون سی اولاد؟ جو بڑی ہوچکی، اور چھوٹی اولاد کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اپنے اللہ والے آباء سے ملادی جائے گی وَمَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اور ان کے عمل میں بھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔ یہ نہیں کہ ان کا عمل تہجد ونوافل وغیرہ کاٹ کر ان سستوں اور کاہلوں کو دے دیا جائے، نہیں! کچھ کمی نہیں کی جائے گی، محض ان کے اعزاز واکرام کے لیے ان کی اولاد کو ان کے ساتھ لاحق کردیں گے لِتَسْلِیَتِھِمْ وَلِسُرُوْرِھِمْ5؎ تاکہ ان کو تسلی ہو اور ان کا دل خوش ہوجائے۔
اِلْحَاقْ مَعَ الْکَامِلِیْنْ کے متعلق ایک مسئلۂ سلوک
یہاں ایک بڑی خوشی اور بشارت کی بات سناتا ہوں۔ حکیم الامت تھانوی نور اللہ مرقدہٗ نے فرمایا کہ اس آیت کی تفسیر میں جو احادیث ہیں ان میں ایک حدیث میں ذُریات کے بعد اولاد کو عطف کیا گیا ہے تو حضرت بیان القرآن میں فرماتے ہیں کہ معطوف اور معطوف علیہ میں مغایرت ضروری ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اولاد کے علاوہ بھی کوئی ذُریات ہے یعنی ذُریت سے مراد مطلق توابع ہیں،لہٰذا اس میں ان شاء اللہ شاگرد، مریدین اور احباب بھی شامل ہوجائیں گے۔ تلامذہ اور مریدین یہ دونوں محبت اور اطاعت کا تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ان کے بھی داخلے کی گنجایش ہے۔ تو مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی۔ حضرت نے تفسیر بیان القرآن میں لکھا ہے کہ اس میں تلامذہ اور مریدین بھی شامل ہیں، یہ بھی ذُریات ہیں، روحانی اولاد ہیں۔
اللہ والوں سے بدگمانی کا انجام
ایمان لانے کے بعد ایمان پر جمے رہنا یہ اہم بات ہے۔ بعض لوگ ایمان تو لے آئے، لیکن ایمان کے تقاضوں پر جمتے نہیں، اپنی من مانی زندگی گزارتے ہیں، جو جی چاہا کرلیا، معلوم ہوتا ہے کہ جی کے غلام ہیں۔ ایک بزرگ کا قصہ حضرت شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ نے سنایا کہ ایک بزرگ جنگل میں بیٹھے ہوئے کہہ رہے تھے کہ نہ میں تیرا بندہ نہ تو میرا خدا، پھر میں تیرا کہنا کیوں مانوں؟ بار بار یہی رٹ لگارہے تھے کہ نہ تو میرا خدا نہ میں تیرا بندہ، تیرا کہنا کیوں مانوں؟
_____________________________________________
5؎ روح المعانی:33/27،الطور(21)،داراحیاء التراث، بیروت