وقت یعنی قیامت کے دن۔ اور یہ فرشتے کہیں گے اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا خوف کےمعنیٰ اندیشہ کے ہیں یعنی مستقبل کا اندیشہ اور حزن کے معنیٰ ہیں ماضی کا غم۔ اَلَّا تَخَافُوۡا یعنی آخرت کی آنے والی ہولناکیوں کا اندیشہ نہ کرو وَ لَا تَحۡزَنُوۡا اور دُنیا چھوڑنے کا غم مت کرو کیوں کہ آگے تمہارے لیے امن اور نعم البدل ہے۔ امن تو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں جاؤگے اور نعم البدل اس لیے کہ کہاں دنیا اور کہاں جنت کی نعمتیں! اور تم جنت کے ملنے پر خوش رہو جس کا تم سے پیغمبر کی معرفت وعدہ کیا گیا تھا۔
تفسیر نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ... الخ
فرشتے کہیں گے:
نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ
ہم تمہارے رفیق تھے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی رہیں گے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر بیان القرآن میں بین القوسین فرماتے ہیں کہ فرشتے دنیا میں اللہ والوں کے ساتھ کس طرح رہتے ہیں؟ کیا کام کرتے ہیں؟ ان کی ڈیوٹی کس طرح کی ہوتی ہے؟ فرماتے ہیں وہ نیکیوں کا الہام کرتے ہیں،یعنی ہر وقت اچھے اعمال کے تقاضے دل میں ڈالتے رہتے ہیں جیسے تہجد پڑھنے کے، اشراق پڑھنے کے، اور حوادث میں صبر اور سکینہ نازل کرتے ہیں۔ فرشتوں کی ڈیوٹی یہ ہے کہ اگر اللہ کے خاص بندے کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو ان کے دل کو سہارا دیتے ہیں، ہارٹ فیل نہیں ہونے دیتے، بدحواس وپاگل بھی نہیں ہونے دیتے اور خودکشی بھی نہیں کرنے دیتے۔
یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں کسی ولی اللہ سے خودکشی ثابت نہیں ہے، جبکہ آج کل کے ترقی یافتہ سمجھے جانے والے ماڈرن ممالک یورپ، امریکا، اسپین وغیرہ سے اگر خودکشی کی رپورٹ منگوائیے تو معلوم ہوجائے گا کہ سب سے زیادہ خودکشیاں وہیں ہوتی ہیں۔
اسلام آباد میں ایک فرانسیسی طالب علم جو کشمیر میں کسی مدرسے میں پڑھ رہا تھا، اس نے مجھے بتایا کہ میری ماں نے دو دفعہ خودکشی کرنے کی کوشش کی، میری بہن نے بھی