پیدا ہوگئے،جس کا ترجمہ ہوگا کہ ہمارا پالنے والا صرف اللہ ہے، کیوں کہ عربی کا قاعدہ ہے تَقْدِیْمُ مَا حَقُّہُ التَّاخِیْرُ یُفِیْدُ الْحَصْرَ جس چیز کو پہلے لانا چاہیے جب اس کو بعد میں لاتے ہیں تو حصر کا فائدہ دیتا ہے یعنی ترجمہ ’’صرف‘‘ کرنا پڑے گا جیسےاَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ6 ؎ میں اَلَا، اَمَا، ھَا حروفِ تنبیہ ہیں۔ ترجمہ یہ ہوگا کہ خبردار! صرف اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو چین ملتا ہے۔ یہاں لفظ’’صرف‘‘ کیوں آیا ہے؟ کیوں کہ بِذِکۡرِ اللہِ کا درجہ بعد میں تھا۔ اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ کی جگہ اصل عبارت اَلَا تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ بِذِکْرِ اللہِ تھی، لیکن جب متعلقات کو مقدم کردیا تو اب اس کے ترجمے میں’’صرف‘‘ لگانا فرض ہے۔ اگر کسی نے اس کا ترجمہ یوں کردیا کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو چین ملتا ہے تو یہ ترجمہ غلط ہوگا،صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ صرف اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو چین ملتا ہے، غیراللہ سے چین مل ہی نہیں سکتا، ہوسکتا ہے کہ وقتی طورپر چین مل جائے،تھوڑی دیر کے لیے گناہ کا مزہ آجائے، لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟
گناہ کے مزے کی مثال
حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ گناہ میں مزہ آنے کی مثال ایسی ہے جیسے خارش میں مزہ آتا ہے۔کھجلی والا کہتا ہے کہ کھجلانے میں اتنا مزہ آتا ہے کہ جیسے میری شادی ہورہی ہے، شامیانہ لگا ہوا ہے، دعوت ولیمہ کررہا ہوں اور دیگیں چڑھی ہوئی ہیں، بریانی پک رہی ہے، لیکن کھجلانے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ جلن اور بڑھ جاتی ہے اور کھجلاتے کھجلاتے خون نکل آتا ہے، تب معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آندھی چلی اور شامیانہ اُڑگیا، دیگیں بھی اُڑگئیں اور بیوی بھی مرگئی یعنی سارا کھیل ہی بگڑگیا۔ یہی حال گناہ کا ہے، تھوڑی دیر کا مزہ ہے اور مستقل سزا ہے، آدمی ہر وقت بے چین رہتا ہے۔ عقل سے سوچو کہ کوئی غلام اپنے مالک کو ناراض کرکے چین سے رہ سکتا ہے؟ لیکن عادت بُری بلا ہے، بُری عادت پڑجائے تو مشکل ہی سے جاتی ہے، لیکن آدمی ہمت کرلے تو بُری سے بُری عادت چھوٹ جاتی ہے۔
_____________________________________________
6؎ الرعد:28