عمل کرلیا۔ نفس کی خواہشات کا نام قرآنِ پاک میں ہَوٰی ہے۔ اگر تم ہَوٰی کو روکتے تو یہ ہوا پیدا نہ ہوتی۔ ہَوٰی سے مزہ لینے کی سزا میں تمہارے پیٹ میں ہوا گھس گئی۔
خونِ تمنّا تقویٰ کی بنیاد ہے
بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب ہمیں ہر وقت بُرے بُرے تقاضے پریشان کرتے رہتے ہیں، ہر وقت گناہ کے خیالات آتے رہتے ہیں، ان سے ہمیں بہت مایوسی ہوتی ہے کہ اتنا ذکر بھی کرتے ہیں، تلاوت بھی کرتے ہیں، بزرگوں کے پاس بھی جاتے ہیں، پھر بھی جب بندر روڈ کے سفر پر جاتے ہیں تو کم بخت دل پریشان کرتا ہے کہ حسینوں کو دیکھ لے۔
اس لیے دوستو! میں کہتا ہوں کہ گناہ کے تقاضوں سے پریشان نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جو حساب کے لیے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا۔ تو اس خوف کی علامت کیا ہے؟ آگے فرماتے ہیں:
وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی
اس خوف کی علامت یہ ہے کہ جب اس کے نفس میں بُری خواہشات پیدا ہوتی ہیں تو ان پر عمل نہیں کرتا، اپنی تمناؤں کا خون کرلیتا ہے، مگر اللہ کو ناراض نہیں کرتا۔ ھَوٰی کے معنیٰ ہیں بُری خواہشات، گندے تقاضے۔ معلوم ہوا کہ اگر ھَوٰی نہ ہو، بُری خواہشات نہ ہوں تو نَھٰی کس بات کی ہوگی؟ کس چیز کو روکوگے؟ ہر نَھِی اپنے مَنْھِی عَنْہُ کو چاہتی ہے۔
معلوم ہوا کہ ھَوٰی کا یعنی بُری خواہشات کا ہونا ضروری ہے، ان خواہشات کو روکنے ہی سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ پس اس آیت سے ثابت ہوا کہ خونِ تمنّا تقویٰ کی بنیاد ہے۔جو شخص چاہتا ہے کہ خواہشات ہی نہ ہوں وہ تقویٰ کا مٹیریل، تقویٰ کا خزانہ ہی برباد کرنا چاہتا ہے، اس لیے ان خواہشات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ جب زیادہ بُری خواہشات آئیں تو سمجھ لو اب تقویٰ کا بازار زیادہ گرم ہوگا، جب زیادہ بریک لگاؤگے، بُرے تقاضوں پر عمل سے زیادہ بچوگے تو زیادہ غم اُٹھانا پڑے گا، جب زیادہ غم اُٹھاؤگے تو اجر زیادہ ملے گا۔اَلْمُشَاھَدَۃُ بِقَدْرِ الْمُجَاھَدَۃِ اللہ کا قرب اتنا ہی عطا ہوتا ہے جتنی آدمی مشقت اُٹھاتا ہے۔ اللہ کے راستے میں جتنا غم اُٹھاتا ہے اتنی ہی ایمان کی مٹھائی ملے گی۔