علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو خصائصِ کبریٰ جلد اوّل میں بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ملک شام والے خواب کا زندگی بھر کسی سے تذکرہ نہیں کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلدَّلِیْلُ عَلٰی مَا أَدَّعِیْ رُؤْیَا کَ الَّتِیْ رَاَیْتَھَا بِالشَّامِ
میری نبوت کی دلیل تمہارا وہ خواب ہے جو تم نے ملک شام میں دیکھا تھا۔ بس اتنا سنتے ہی سمجھ گئے کہ یہ سچے نبی ہیں، کیوں کہ جانتے تھے کہ میں نے کائنات میں کسی سے یہ خواب نہیں بیان کیا،لہٰذا ان کو اللہ تعالیٰ وحی الٰہی سے اطلاع فرماتے ہیں۔ چناں چہ حضرت صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ نے مارے خوشی کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معانقہ کیاوَقَبَّلَ بَیْنَ عَیْنَیْہِ14؎ اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا۔ یہ ہیں صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ۔
استقامت کا انعام
تو میں عرض کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو مرتے دم تک دین پر استقامت سے اور جم کر رہتے ہیں:
تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ
ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کے فرشتے اُتریں گے۔ یہ ہے استقامت کا انعام کہ ان پر فرشتے اُتریں گے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتے کہاں کہاں اُتریں گے؟ حکیم الامت بیان القرآن میں بین القوسین فرماتے ہیں کہ فرشتے تین مرتبہ اُتریں گے، مرتے وقت، قبر میں اور پھر بعث کے وقت یعنی قیامت کے دن۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے روح المعانی میں بھی یہی نقل کیا:
عِنْدَ الْمَوْتِ وَفِی الْقَبْرِ وَعِنْدَ الْبَعْثِ15؎
یہ عبارت تفسیر روح المعانی کی ہے۔ یعنی فرشتے اُتریں گے موت کے وقت، قبر میں اور بعث کے
_____________________________________________
14؎ الخصائص الکبرٰی:79/1، باب من اسباب اسلام ابی بکر ، دارالکتب العلمیۃ،بیروت
15؎ روح المعانی:121/24، حٰمٓ السجدۃ(30)،داراحیاءالتراث، بیروت