خونِ تمنّا کا انعام کیا ہے؟
آپ کے پاس دو دوست آئے۔ ایک کو آپ تک پہنچنے میں کچھ زیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں، تھوڑا سا کہیں معمولی کانٹا لگ گیا اور اس نے آپ کو دکھایا کہ دیکھیے ایک قطرہ خون نکل آیا، اور ایک دوست بڑی دور سے آیا، اس کو راستہ بھر بھیڑیے، کتے، درندے اور دشمن ستاتے، ڈراتے اور دھمکاتے رہے، بعض نے چاقو سے حملہ بھی کردیا اور آپ نے دیکھا کہ اس کے خون بہہ رہا ہے۔ آپ بتائیے آپ کس کو زیادہ نمبر دیں گے؟ اسی کو جو زیادہ مصیبت اُٹھاکر آپ کے پاس حاضر ہوا ہے۔ اسی طرح جو لوگ اللہ کو راضی کرتے ہیں زیادہ مصیبتیں اُٹھاکر، زیادہ غم اُٹھاکر، تو ان کے بارے میں تم کیا سوچتے ہو؟ اپنی تمناؤں کا خون پینا کوئی آسان کام نہیں ہے، یہ باطنی شہادت ہے، اندر اندر خون بہہ گیا، سوائے خدا کے کسی کو اس کی خبر نہیں، لیکن اس کا انعام کیا ہے؟ میرا شعر ہے؎
ہائے جس دل نے پیا خونِ تمنا برسوں
اس کی خوشبو سے یہ کافر بھی مسلماں ہوں گے
آپ جانتے ہیں کہ جو آرزوؤں کا خون پیتے ہیں، اپنی ناجائز خواہشات پر عمل نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ ان کو وہ خوشبو، اپنی محبت کی وہ مٹھاس، وہ حلاوت اور اپنی محبت کا وہ درد عطا کرتا ہے جس کی خوشبو سے ناقص مسلمان کامل ہوتے ہیں، بلکہ میں کہتا ہوں کہ کافر بھی ان کو دیکھ کر مسلمان ہوجاتے ہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے اللہ کے راستے میں کوڑے کھائے تھے، سب مسلمانوں کو پتا تھا کہ انہیں کوڑے لگے تھے اور اسی صدمے سے ان کا انتقال ہوا۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ جلد اوّل میں ان کے حالات میں بیان فرماتے ہیں کہ اَسْلَمَ عِشْرُوْنَ اَلْفًا یَوْمَ وَفَاتِہٖ ان کا جنازہ دیکھ کر بیس ہزار کافر یہودی وعیسائی مسلمان ہوگئے؎
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
یہ سارے یہودی عیسائی اس بنا پر مسلمان ہوگئے کہ یہ شخص اللہ کا کتنا عاشق تھا، اگر چاہتا تو مسئلہ بدل دیتایا خاموش رہتا، لیکن انہوں نے اپنی جان وآبرو کی پروا نہ کی اور محض اللہ کی رضا کے لیے کوڑے کھائے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھئی اللہ کے راستے میں گناہ چھوڑنے سے