سامنے سلطنت فیل ہوجائے گی،سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی میں اللہ وہ مزہ دے گا جو مولانا شاہ فضلِ رحمٰن صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ میاں اشرف علی! حضرت تھانوی اس وقت چھوٹے تھے عمر میں، بزرگ اپنے چھوٹوں کا نام لیتے ہیں۔ فرماتے تھے کہ میاں اشرف علی! کیا بتاؤں کہ جب سجدہ کرتا ہوں تو کیا مزہ آتا ہے؟ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اللہ نے مجھے پیار کرلیا ہو۔
حدیثِ پاک میں ہے کہ بندہ جب سجدہ کرتا ہے تو رحمٰن کے قدموں پر اس کا سر ہوتا ہے۔ ایک شاعر سجدہ کا منظر بیان کررہا ہے ؎
پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں اُن کی اِدھر نظر بھی ہے
بڑھ کے مقدر آزما سر بھی ہے سنگِ در بھی ہے
کعبہ کی طرف جو سجدہ کیا جاتا ہے تو شاعر کہتا ہے کہ میں کعبہ کو سجدہ نہیں کرتا، کعبہ کی طرف رُخ کرتا ہوں؎
کافر ہے جو سجدہ کرے بت خانہ سمجھ کر
سر رکھا ہے ہم نے درِ جانانہ سمجھ کر
میں اس پتھر کو سجدہ تھوڑی کررہا ہوں،’’ کعبۃ اللہ‘‘اللہ کی چوکھٹ ہے، اللہ نے اس کو اپنا گھر بتایا ہے، اس لیے اس کی طرف رُخ کرکے سجدہ کررہا ہوں ورنہ اصل میں ہمارا قبلہ ربّ البیت ہے، کیوں کہ ان کا حکم ہے کہ اس گھر کی طرف اگر رُخ کرلوگے تو ہماری ہی طرف رُخ ہوجائے گا، بیت الرّب کی طرف رُخ کرنا اصل میں ربّ البیت کی طرف رُخ کرنا ہے۔
اللہ والا بننے کا طریقہ
تو میں عرض کررہا تھا کہ اللہ کے دوستوں کے ساتھ چند دن گزارلو، ان کی صحبتوں کی برکت سے تم بھی اللہ والے بن جاؤگے۔ ایک دیسی آم کڑوا اور کھٹا تھا جو اس کو کھاتا تھوتھو کرتا۔ اس دیسی آم نے کیا کیا؟ لنگڑے آم سے قلم لگوالی۔ ٹنڈوجام کے اٹامک انرجی کالونی میں ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ والوں میں بعضے اس کے دوست تھے۔ دیسی آم نے ان سے کہا کہ بھئی سنا