حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
|
حیاتِ تقویٰ اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾ وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ﴿ؕ۱۰﴾ 1؎ اللہ تعالیٰ نے اس سے قبل کی آیات میں آسمان اور زمین اور بڑی بڑی نشانیوں کی قسم اُٹھانے کے بعد پھر نفس کی قسم اُٹھائی ہے وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا اور قسم ہے نفس کی اور اس ذات کی جس نے اس کو درست بنایا، جس نے نفس کے اندر دونوں مادّے رکھ دیے فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا اللہ نے نفس کے اندر گناہ کرنے کے تقاضے اور طاقت بھی پید اکردی ہے اور متقی بننے کی صلاحیت بھی اس میں رکھ دی۔ اب انسان کے اختیار میں ہے کہ چاہے وہ نفس کی غلامی کرکے جہنم کا راستہ اختیار کرلے اور چاہے تو ہمت کرکے متقی بن کر اللہ کا ولی بن جائے۔ چاہے تو عبدالرحمٰن بن جائے، چاہے تو عبدالشیطان بن جائے یعنی شیطان کا بندہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ انسان چاہے تقویٰ کا راستہ اختیار کرے اور چاہے فجور کا راستہ اختیار کرے، اسی اختیار پر جزا اور سزا ہے۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو بعد میں کیوں بیان فرمایا؟ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا نافرمانی کے مادے کو پہلے بیان فرمایا جبکہ قاعدہ کے مطابق اچھی چیز پہلے بیان ہونی چاہیے۔ مسجد میں آپ اچھا قدم یعنی _____________________________________________ 1 ؎الشمس : 10-7