حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
|
پیش لفظ بعض سالکین بوجہ لاعلمی کے گناہوں کے تقاضوں کو تقویٰ کے منافی سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے ان تقاضوں سے سخت پریشان رہتے ہیں حتی ٰ کہ شیطان ان کو بہکاتا ہے کہ ان تقاضائے معصیت کے ہوتے ہوئے تم اللہ والے نہیں ہوسکتےلہٰذا غیر صحبت یافتہ اور حقیقت دین وتصوف سے ناآشنا نہ جانے کتنے لوگ معصیت اور تقاضائے معصیت میں فرق نہ کرسکے اور مایوس ہوکر ان تقاضوں پر عمل کرنے لگے اور منزل قرب حق سے محروم ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ عارف باللہ مرشد حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب اطال اللہ بقاء ہم وادام اللہ فیوضہم کو جزائے جزیل اور اجر عظیم عطا فرمائےکہ پیش نظروعظ میں آپ نے نص قرآنی فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقۡوٰىہَا سے ثابت فرمایا کہ گناہوں کے تقاضے راہ سلوک میں قطعاً مضر نہیں،ان تقاضوں پر عمل کرنا مضر ہے بلکہ اگر یہ تقاضے نہ ہوں تو کوئی متقی ہوہی نہیں سکتا کیوں کہ تقویٰ کے معنیٰ ہی یہ ہیں کہ گناہ کا تقاضا ہواور طبیعت پر جبر کرکے اس کو روکے اور اس روکنے میں جو غم ہو اس کو برداشت کرے لہٰذا آمادۂفجور یعنی تقاضائے معصیت تقویٰ کا موقوف علیہ ہے اور تقویٰ کے لیے ان تقاضوں کا وجود ضروری ہے لہٰذا ان تقاضوں سے ہرگز نہ گھبرانا چاہیے۔ بس ان کے متقضاپر عمل نہ کرے اور مادۂ فجور کی دو قسمیں ہیں ایک جاہ دوسری باہ۔ لہٰذا اگر ہم جاہ کا جیم اور باہ کا باء نکال دیں یعنی ان کے تقاضائے غیر مرضیہ غیر شرعیہ پر عمل نہ کریں تو آہ رہ جائے گی اور ہماری آہ اور اللہ میں اتنا قرب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نام پاک میں ہماری آہ کو شامل کررکھا ہے ۔حاصل یہ کہ سالکین طریق تقاضائے معصیت پر عمل نہ کریں تو مقرب باللہ ہوجائیں گے اور تقویٰ کے حصول کا طریقہ کُوْ نُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ہے۔ حضرت والا کا یہ وعظ واماندہ ومایوس سالکین طریق کے لئے نسخۂ کیمیا اور آفتاب امید ہے جس کو حضرت والا نے قرآنی آیات واحادیث پاک سے مدلل فرماتے ہوئے مثنوی رومی کی تمثیلات کے ساتھ اور خصوصاً اس درد دل اور سوز عشق کے ساتھ بیان فرمایا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت والا کو خاص کیا ہے اور جو اس عظیم ونایاب ورثہ کا حصہ ہے جو امت میں