حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
|
نورِ تقویٰ بن جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی عطا کے لیے سند نہیں چاہتے، وہ خود قابلیت دے دیتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب جانوروں کے گوبروں اور نجاستوں کو اللہ تعالیٰ خلعتِ گل اور خلعتِ نور عطا کررہے ہیں ؎ چوں خبیثاں را چنیں خلعت دہی اے اللہ! جب آپ خبیث نجاستوں کو یہ خلعت، یہ پوشاک اور یہ لباس عطا کررہے ہیں، گلاب و چنبیلی کا لباس، روشنی و نور کا لباس ؎ من چہ گویم طیبیں را چہ دہی تو اے اللہ! آپ اپنے پاک بندوں کو کیا کچھ عطا فرماتے ہوں گے۔ جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بیان سے قاصر ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے کرم کا سورج اللہ والوں پر اور اللہ کے دین پر چلنے والوں پر، سالکین اور مریدین کے دلوں پر، ان کے آہ و نالوں پر کیا کیا نعمتیں برساتا ہے۔ نسبت مع اللہ کے آثارجب آپ کے کرم کا سورج ان پر طلوع ہوتا ہے تو اخلاقِ رذیلہ اخلاقِ حمیدہ سے بدل جاتے ہیں۔ وہی محبت جو مرنے والی لاشوں پر فدا ہورہی تھی، وہی محبت اب سجدوں میں اللہ پر فدا ہورہی ہے،وہی محبت بصورت سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی اللہ کے قدموں میں اپنا سر رکھے ہوئے ہے جو سب سے بڑے ہیں، جو خالق سر ہیں۔ عزت اسی کی ہے جو خالق سر کے قدموں میں سر رکھ دے، جس سر نے خالق سر کے قدموں میں سر رکھ دیا اس کے سارے ہوگئے، پھر اس کی کوئی مشکل قائم نہیں رہ سکتی، کیوں کہ سب سے بڑے کے قدموں میں سر آگیا، اب ساری مشکل اس کی سر ہوگئی۔ نورِ تقویٰ کیسے پیدا ہوتا ہے؟ تو دوستو! یہ عرض کررہا ہوں۔ چند دن کا معاملہ ہے، تھوڑی سی ہمت کرلیجیے اور بدپرہیزی نہ کیجیے یعنی گناہ کے تقاضوں پر عمل نہ کیجیے۔ جس طرح سورج جنگل کے گوبروں کو