حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
بے کار ہے۔ اس کا قدم کیا ہے؟ اس قابل ہے کہ قطع کردیا جائے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو پیر اللہ کے راستہ میں نہ چلیں، خدا کی مسجد کی طرف نہ جائیں، ان پیروں کا کٹ جانا بہتر ہے۔ جو ہاتھ اللہ کی عبادت میں نہ لگیں، حجرِ اسود کا بوسہ نہ دیں، اللہ والوں سے مصافحہ نہ کریں، ان ہاتھوں کا قطع ہوجانا بہتر ہے۔ جو کان اللہ کی بات نہ سنیں اس قابل ہیں کہ اُکھاڑ دیئے جائیں۔ جو آنکھیں اللہ تعالیٰ کے جلوہ کے قابل نہ ہوں، اللہ کی نافرمانی کرتی ہیں وہ آنکھیں نکال کر پھینک دینے کے قابل ہیں۔ جو اللہ کا نافرمان ہو وہ زندہ رہنے کے قابل نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کو مار ڈالیں یا آنکھ پھوڑ دیں یا کان کاٹ لیں۔ مطلب یہ ہے کہ عنداللہ ایسے شخص کی کوئی وقعت نہیں،یہ تو اللہ تعالیٰ کا حلم و کرم ہے کہ وہ موقع دیتے ہیں کہ شاید اب یہ توبہ کرلے، اب کرلے، اب کرلے، لیکن ہمارے اصرار علی المعصیت کی انتہا نہیں، اگر حق تعالیٰ حلیم نہ ہوتے تو ہمارا وجود نہ ہوتا۔ تقویٰ کیا ہے؟ دوستو! یہ عرض کررہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو پہلے بیان نہیں کیا۔ پہلے فرمایا فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا کہ میں نے تمہارے اندر نافرمانی کے تقاضے رکھ دیے۔ اب تمہارا کام ہے کہ اس تقاضے پر عمل نہ کرو تو خودبخود آیت کے اگلے جز پر تمہارا عمل ہوجائے گا یعنی تقویٰ پیدا ہوجائے گا۔ یہ مادّہ فجور یعنی نافرمانی کا مادّہ تقویٰ کا موقوف علیہ ہے، تقویٰ حاصل کرنا چاہتے ہو تو صرف گناہ چھوڑ دو، گناہ کے تقاضوں پر عمل نہ کرو۔ کام نہ کرو اور انعام لو! اے دنیا کے فیکٹری والو! تم تو مزدوری کراکے انعام دیتے ہو لیکن ہم سے تم انعام لو کام نہ کرکے۔ چوری نہ کرو، ڈاکہ نہ مارو، جھوٹ مت بولو، عورتوں کو مت دیکھو،حسینوں کو مت دیکھو، کام نہ کرکے انعامِ تقویٰ اور میری دوستی کا انعام لے لو، کیوں کہ تقویٰ کس چیز کا نام ہے؟ تقویٰ نام ہے اس کا کہ گناہ کا تقاضا پیدا ہو اور پھر اس پر خدا کے خوف سے عمل نہ کرے اور اس میں جو غم ہو اس کو برداشت کرے اور اس غم پر پچھتاوا بھی نہ ہو کہ آہ! میں نے