حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
|
بَطَرُ الْحَقِّ اور غَمْطُ النَّاسِ کبر کے دو جزو اعظم تکبر کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبیہ سے سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مطلع فرمایا بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ 6؎ حق بات قبول نہ کرنا کبر ہے۔ جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانتے، کچھ بھی کہتے رہو، ہم عمل نہیں کریں گے، ہم مولویوں کی بات نہیں سنتے۔ حق بات جانتا ہے، دل کہہ رہا ہے کہ یہ شخص حق بات کہہ رہا ہے، مگر اس کو قبول نہ کرے یہ متکبر ہے اور دوسری علامت ہے غَمْطُ النَّاسِ، الناس کا لفظ سن لیجیے، مؤمن نہیں فرمایا، الناس فرمایا۔ لہٰذا اگر کسی کافر کو بھی حقیر سمجھتا ہے تو کبر آگیا اور وہ سزا کے لائق ہوگیا۔ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ اب آپ کہیں گے کہ بھلا کافر کو بھی ہم حقیر نہ سمجھیں! تو خوب سمجھ لیجیے کہ کافر کے کفر سے بغض رکھنا فرض ہے، مگر کافر کو حقیر سمجھنا حرام ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ مرتے دم اس کو کلمہ نصیب ہوجائے اور اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔ کفر سے نفرت واجب، کافر کو حقیر سمجھنا حرام مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ہندو بنیے کو خواب میں دیکھا کہ جنت میں ٹہل رہا ہے۔ پوچھا کہ لالہ جی! تو کہاں سے جنت میں آگیا؟ اس نے کہا کہ مولوی صاحب مرتے دم ’’اَن کہی‘‘ کہہ لی تھی یعنی کلمہ پڑھ لیا تھا لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ۔ ہندو کلمہ کو ’’ اَن کہی‘‘ کہتا ہے یعنی نہ کہنے والی بات لیکن اللہ تعالیٰ کی توفیق ہوگئی، عمر بھر رام رام کیا تھا مگر مرتے وقت کام بن گیا، کافر کو بھی حقیر سمجھنا اسی لیے حرام ہے، نہ معلوم خاتمہ کیسا لکھا ہوا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ ہیچ کافر را بہ خواری منگرید کہ مسلماں بودنش باشد اُمید کسی کافر کو بھی ذلیل مت سمجھو، حقارت سے مت دیکھو کیوں کہ مرنے سے پہلے اس کے مسلمان ہوجانے کی اُمید ہے، ہوسکتا ہے کہ ا س کا خاتمہ ایمان پر لکھا ہو اور اپنے بارے میں _____________________________________________ 6 ؎الصحیح لمسلم:65/1باب تخریج الکبر وبیانہ، ایج ایم سعید