حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
داہنا قدم پہلے رکھتے ہیں، کھانا داہنے ہاتھ سے کھاتے ہیں، ہر عمدہ چیز مقدم ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فجور کو مقدم فرمایا تقویٰ پر، اس میں ایک بہت بڑا راز ہے۔ اگر یہ راز معلوم ہوجائے تو کسی شخص کو اپنے گناہوں کے تقاضوں سے غم نہ ہو، گناہ کا تقاضا آپ کے لیے مضر نہیں ہے، اس پر عمل کرنا مضر ہے، اگر تقاضا ہی نہ ہو تو آپ متقی ہو ہی نہیں سکتے۔ خونِ آرزو آفتابِ نسبت کا مطلع ہے کیوں کہ تقویٰ نام ہے کہ گناہ کا تقاضا ہو، دل چاہے گناہ کرنے کو لیکن دل کو مارلو، نفس کی خواہش کو پورا نہ کرو، اپنی غلط آرزوؤں کا خون کرلو تو دل کے تمام آفاق، اُفق شرق، اُفق غرب، اُفق شمال، اُفق جنوب دل کے چاروں اُفق لال ہوجائیں گے۔ دنیا کا سورج تو ایک اُفق سے نکلتا ہے یعنی مشرق سے لیکن اللہ والے جب تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اپنی غلط آرزوؤں کا خون کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں غم اُٹھاتے ہیں تو دل کے چاروں اُفق شرق و غرب، شمال و جنوب خونِ آرزو سے لال ہوکر چاروں طرف سے دل میں نسبت مع اللہ کا، تعلق مع اللہ کا، اللہ کی ولایت اور دوستی کا سورج نکلتا ہے اور اگر غلط آرزو کا خون نہیں کیا تو پھر کیا ملے گا؟ اندھیرے پر اندھیرے چڑھتے جائیں گے، غلاظت پر غلاظت چڑھتی جائے گی، بدبو پر بدبو، بدنامی پر بدنامی، خوش نامی نہیں ملے گی، کوئی حضرت کہنے والا پھر روئے زمین پر نہیں رہے گا، جب خلق کو معلوم ہوجائے گا کہ حضرت جو ہیں یہ بڑے حضرت ہیں، محاورہ میں کہتے ہیں کہ یہ بڑے حضرت ہیں، بڑا استاد آدمی ہے، ذرا ان سے ہوشیار رہنا۔ اس سے اکرام کے القاب چھین لیے جاتے ہیں۔ گناہ کی ایک سزا دنیا میں یہ بھی ہے کہ اکرام اور عزت کے القاب چھن جاتے ہیں اور ذلت کے لقب ملتے ہیں۔آپ بتائیے کہ دل کا کیا عالَم ہوگا جس کے ہر اُفق سے اللہ کے قرب کا سورج طلوع ہورہا ہے۔ ایک صاحب کا نام ہے خورشید، ایک دن وہ ملنے آئے تو میں نے یہ شعر کہا ؎ خورشید کے دل کو جو ملا خالق خورشید خورشید سے پوچھے کوئی خورشید کا عالَم