حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
|
کیوں تقویٰ اختیار کیا؟ کاش! ایک نظر دیکھ لیتا۔ یہ پچھتاوا اور حسرت جب تک ہے سمجھ لو کہ شیطان اس کی حجامت بنارہا ہے، ابھی اس کا دل کچا ہے، ایمان خام ہے، ایمانِ کامل جب ہوگا کہ گناہ سے اپنے کو بچاکر، اس کا غم اُٹھاکر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے، خوشی سے مست ہوجائے۔ متقی کسے کہتے ہیں؟ متقی وہ شخص ہے جو گناہ سے اپنے کو بچائے، اپنی نظر کو بچائے عورتوں سے، حسینوں سے۔ اپنے کو جھوٹ سے بچائے، رشوت سے بچائے، ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی و بدتمیزی سے بچے، بیوی پر ظلم و زیادتی کرنے سے بچے، پڑوسیوں کے حقوق میں ظلم کرنے سے بچے، ہروقت جائز اور ناجائز پر عمل کرے اور پچھتائے بھی نہیں کہ کیا کہیں اسلام عجیب مذہب ہے کہ ہمیں ہر وقت جائز ناجائز کی مصیبت میں ڈال دیا۔ ارے ظالم! مصیبت میں نہیں ڈالا، اسلام نے مصیبت سے بچالیا ورنہ اگر کھلے سانڈ کی طرح ہر کھیت میں منہ ڈالتا تو اتنی لاٹھیاں پاتا کہ جینا حرام ہوجاتا، ذرا دیہات میں جاکر دیکھ۔ جو سانڈ ہر کھیت میں منہ ڈالتا ہے اس پر اتنی لاٹھیاں برستی ہیں کہ پیٹھ میں ایک انچ جگہ نہیں رہتی کہ سلامت ہو اور جب بیمار ہوتا ہے تو اس کا کوئی علاج کرنے والا نہیں ہوتا، جب مرجاتا ہے تو کوئی دفن کرنے والا نہیں ہوتا، چیل کوّے کھا جاتے ہیں۔ بیعت کی حقیقت یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے قید و بند سے آزاد ہوتا ہے، اس کی زندگی بھی ایسی لعنتی اور بے کسی کی ہوتی ہے اور جو اللہ والا ہوتا ہے، اللہ والوں کے ہاتھ بکتا ہے وہ دراصل اللہ والوں کے ہاتھ نہیں بِکتا، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ فروخت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنے نمائندے رکھے ہوئے ہیں جو بندوں کو اپنے ہاتھوں پر خرید کر اللہ تک پہنچادیتے ہیں۔ بیعت کی ایک حسی مثال جیسے وزیراعظم کو گندم بھیجنا ہے تو کسانوں سے گندم خریدنے کے لیے وزیراعظم