حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
|
نام میں پالیں۔ بتائیے! دو جملوں میں پورا تصوف آگیا یا نہیں؟ جاہ کا جیم اور باہ کا باء نکال دو۔ اب جاہ اور باہ دونوں مسلمان ہوگئے۔ دل سے اپنی بڑائی نکال دی اور شہوت کے تقاضوں پر غالب ہوگئے تو سمجھو کہ جاہ کا جیم نکال دیا اور باہ کا باء نکال دیا۔ یہی دو چیزیں ہیں جو انسان کو مردود اور شیطانوں کی چال پر چلاکر اللہ سے دور کرتی ہیں۔ کوئی کبر سے ہر وقت اپنے کو بڑا سمجھتا ہے، کوئی ٹیڈیوں کے چکر میں ہے، اس کو قوتِ مردانگی اور باہ نے مغلوب کیا ہوا ہے۔ حاجی امداد اللہ صاحب شیخ العرب والعجم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نفس کی تمام بیماریوں میں اصل دو ہی تو ہیں، باقی سب اس کی شاخیں اور برانچ ہیں۔ ایک جاہی ایک باہی، جاہ کے معنیٰ ہیں اپنے کو بڑا سمجھنا، بس اس کو مٹادو، ابھی کیسے فیصلہ کرتے ہو کہ ہم بڑے ہیں،یہ فیصلہ تو قیامت میں اللہ کرے گا، ہماری قیمت اللہ لگائے گا، جو غلام اپنی قیمت خود لگاتا ہے، احمق، پاگل اور بے وقوف ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے سیکھیے۔ کیا فرماتے ہیں ؎ ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے جب میدانِ قیامت میں اللہ قیمت لگادے تو ان کے کرم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنت میں چلے جاؤ، مگر دنیا میں اپنی قیمت لگانے والا جو کسی بھی انسان سے اپنے کو بہتر سمجھتا ہے متکبر ہے۔ کبر کا ایٹم بم اور اس کے اجزائے ترکیبی سرورِ عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جس کے دل میں ایک سرسوں کے دانہ کے برابر بڑائی ہوگی وہ جنت میں نہیں جائے گا، جنت میں جانا تو درکنار اس کو جنت کی خوشبو بھی نہیں ملے گی۔ لَایَجِدُرِیْحَہَا جنت کی ہوا بھی نہ پائے گا۔ تو آپ بتائیے کبر کا یہ مٹیریل جس کی خبر سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دی اتنا بڑا ایٹم بم ہے کہ جس سے انسان جنت سے محروم ہوجائے، اس کی ہوا بھی نہ پائے، اس کا نام تکبر ہے، لہٰذا اس کی فکر ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ یہ ایٹم بم ہمارے دل میں ہو اور ہمیں پتا بھی نہ چلے، لہٰذا بم ڈسپوزل اسکواڈ یعنی اہل اللہ سے مشورہ کرلیں کہ دل کے کسی کونے میں کہیں یہ ایٹم بم تو نہیں ہے۔