حیات تقوی |
ہم نوٹ : |
خود نہیں آتا بلکہ ہر علاقہ کے ڈپٹی کمشنر کو اپنا نمائندہ بناتا ہے کہ کسانوں سے رابطہ قائم کرکے سرکاری پیسے سے ان کو ادائیگی کرو اور ان سے گندم خریدلو اور اسلام آباد بھیج دو۔ اسی طرح اللہ والے اللہ تعالیٰ کے نمایندے ہیں، بندو ں کو خرید کر وہ اللہ تعالیٰ کے پاس بھیج دیتے ہیں، یعنی ولی اللہ بننے کا راستہ بتادیتے ہیں جس پر چل کر وہ اللہ والا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے لیے نہیں خریدتے، اللہ تعالیٰ کی بندگی سکھانے کے لیے بیعت کرتے ہیں، بیعت کے معنیٰ ہیں بِکنا، دراصل وہ بکتا ہے اللہ کے ہاتھ۔ اللہ والوں کا ہاتھ نمایندہ ہوتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں وہ اصل میں میرے نبی کا ہاتھ نہیں ہے، میرا ہاتھ ہے یَدُ اللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ 2؎ اللہ کا ہاتھ ہے وہ۔ اے صحابہ! سمجھ لو کہ تم میرے پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہاتھ پر جو بیعت کررہے ہو وہ میرے نبی کا ہاتھ نہیں ہے یَدُ اللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ اے صحابہ(رضی اللہ عنہم)! تمہارے ہاتھوں پر بظاہر نبی کا ہاتھ ہے مگر اس ہاتھ میں دراصل میر اہاتھ ہے، نبی کا ہاتھ میرا خلیفہ اور نمایندہ ہے۔ تو اسی طرح جو نائبِ رسول ہیں، جب وہ بیعت کرتے ہیں تو ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے، بیعت ہونے والا اللہ کے ہاتھ فروخت ہوتا ہے، اسی لیے اہل اللہ کے گروہ میں شامل ہوکر جلد اللہ والا ہوجاتا ہے۔ تو عرض کررہا تھا کہ گناہ کے تقاضوں سے پریشان نہ ہوں، یہ تقاضے آپ کی ولایت کے لیے سیڑھی ہیں، جس کو یہ تقاضے نہیں ہوں گے تو وہ ہیجڑا ہوجائے گا، پھر ولایتِ خاصہ مل ہی نہیں سکتی، اگر انسان بالکل صفر ہوجائے، کوئی تقاضا ہی اس میں پیدا نہ ہو تو ولی اللہ بھی نہیں ہوسکتا۔ فرشتوں پر اولیاء اللہ کی فضیلت کا سبب اولیاء اللہ فرشتوں سے اسی لیے بازی لے گئے، اسی لیے ان کا درجہ فرشتوں سے زیادہ ہے کہ ان کے دل میں گناہ کے تقاضے پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ ان پر عمل نہ کرکے دل پر غم اُٹھالیتے ہیں، فرشتے دیکھتے ہیں کہ ہم کو تو کوئی تقاضا نہیں ہوتا لیکن یہ بے چارے ہر وقت _____________________________________________ 2 ؎الفتح : 10