ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2016 |
اكستان |
|
(١) ''مَاٰرِبْ '' یمن کا مشہور مقام ہے جس کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں بھی ہے،یہیں کے رہنے والے ایک صحابی اَبْیَضْ بِنْ حَمَّالْ سَبَائِیْ تھے اِن کو اَبْیَضْ بِنْ حَمَّالْ مَآرِبِی بھی کہاجاتا ہے،یہ آنحضرت ۖ کی خدمت میں درخواست لے کر حاضر ہوئے کہ مآرب میں جو نمک ہے وہ اِن کوعطا کر دیاجائے، آنحضرت ۖ نے درخواست منظور فرمالی، جب یہ واپس ہوگئے تو ایک صاحب نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ نے خیال نہیں فرمایا آپ نے اُن کو کیا عطا کردیا ؟ آپ نے اُن کو '' اَلْمَائُ الْعَدَّ '' یعنی چشمہ عطا فرما دیاجوکبھی بھی خشک نہیں ہوتا۔ آپ نے اُس کو واپس لے لیا۔ ١ علمائے کرام نے اِس واقعہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اُنہوں نے جو درخواست کی تھی کہ ''اَلْمِلْحُ'' (نمک) عطا کر دیا جائے تو اِس کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ اِس جگہ سے نمک محنت ومشقت اور کسی خاص تر کیب عمل و کد ٢ سے بر آمد کیا جاتا ہوگا اِسی بنا پر آنحضرت ۖ نے اِجازت دے دی۔ اِس کی مثال ایسی ہوئی جیسے کسی جنگل سے درخت کاٹنے کی اِجازت دے دی جائے یالوہے کی کان سے اُن ڈھیلوں یا پتھروں کو نکالنے کی اِجازت دے دی جائے جن میں سے خاص ذرّات نکال کر لوہا بنا لیا جاتا ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ''اَلْمِلْحُ'' اُس طرح کی کان نہیں بلکہ چشمہ ہے اور چشمہ بھی موسمی نہیں ہے بلکہ اُس کا یہ پانی جو خود بخود نمک بن جاتا ہے ہمیشہ رہتا ہے۔ اَلدَّائِمُ لَا انْقِطَاعَ لِمَادِّتِہ۔( مجمع البحار) اَب سوال یہ پیدا ہوا کہ (١) آیا پانی کے چشمہ کی تملیک یا تخصیص جائز ہے اور اِس کو بطور ِ جاگیر کسی کو دیا جا سکتا ہے ؟ (٢) کیا ایسی قدرتی چیز جو مباحِ عام ہو اور اُس کی ضرورت بھی عام ہو اُس کو کسی فرد یا اَفراد کے لیے مخصوص کردینا اور اُن کی مِلک بنا دینا درست ہے ؟ ١ تر مذی شریف ابواب الاحکام باب ماجاء فی القطائع رقم الحدیث ١٣٨٠ ٢ لمعات شرح مشکوة