ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2016 |
اكستان |
|
''مسلمانو ! تمہیں کیا ہو گیا ہے جب تم سے کہا جا تا ہے کہ اللہ کی راہ میں قدم اُٹھاؤ تو تمہارے پاؤں بوجھل ہو کرزمین پکڑ لیتے ہیں، کیا آخرت چھوڑ کر صرف دُنیا کی زندگی پر ریجھ گئے ہو (اگر ایسا ہی ہے) تو (یادرکھو) دُنیاوی زند گی کی پونجی آخرت کے مقابلہ میں اگر کچھ وجود رکھتی ہے تو وہ بہت ہی تھو ڑا ہے (نفی کے برابر) (اوردیکھو) اگر تم قدم نہیں اُٹھا تے تو یاد رکھو وہ تمہیں ایک ایسے عذاب میں ڈال دے گا جو درد ناک ہو گا اور تمہاری جگہ کسی دُوسرے گروہ کو لاکر کھڑا کر دے گا اور تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے، اپنا ہی نقصان کروگے۔ (سورۂ توبہ آیت : ٣٨، ٣٩) پھر اِرشاد ہے : ''نکل کھڑے ہو (قدم بڑھاؤ) ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے،یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم میں سمجھ ہے۔'' ١ یعنی صرف جانیں قر بان کر نا نہیں بلکہ مال قر بان کرنا بھی مسلمانوں پر فرض ہے اور ہر مسلمان پر لا زم ہے کہ وہ عقیدہ رکھے کہ جو کچھ اُس کے پاس ہے وہ اُس کا نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا ہے کیونکہ '' بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے خرید لی ہیں مسلمانوں سے اُن کی جانیں اور اُن کے مال اِس قیمت پر کہ اُن کے لیے جنت ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔'' (سورۂ تو بہ آیت نمبر : ١١١) جب مسلمان کامال خداکا مال ہے تواگر دفاعی اور جنگی اِستحکام کے لیے پورا مال خرچ کرنے کی ضرورت ہوئی تومسلمان پر فرض ہوگاکہ پو را مال خرچ کر دے۔ '' اے پیغمبر ! تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ آپ کہہ دیجیے جو اَفزود ٢ ہو ۔'' ٣ اِس کی وضاحت یہ ہے : ١ سورۂ تو بہ آیت : ٤١ ٢ ضرورت سے زائد ہو۔ ٣ سورۂ بقرہ آیت : ٢١٩