ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
اُسی شخص کے توسط سے جو اَپنا چھوٹا سا کاروبار کرتا ہے اِس کی میاں شریف سے پہلی ملاقات ہوئی، میاں شریف کو اپنی نو تعمیر اِتفاق مسجد کے لیے ایک خطیب کی تلاش تھی، اُنہوں نے طاہر القادری سے اِس سلسلے میں رابطہ کیا تو اُس نے موقع سے فائدہ اُٹھایا لیکن اُس نے بزرگ صنعت کار کے سامنے چند شرائط پیش کیں۔ اُس نے کہا کہ وہ کوئی معاوضہ قبول نہیں کرے گا لیکن اُنہیں اُس کے خطباتِ جمعہ کو پمفلٹ کی صورت میں طبع کرانا ہوگا اور اُس کے کیسٹ بنائے جائیں گے۔ نوجوان آدمی کو اپنی خطابت کے جادُو کا اَندازہ ہوچکا تھا۔ میاں شریف نے اِن شرائط کو تسلیم کرلیا، مسجد کی تعمیر پر لاکھوں روپے صرف کرنے والے آدمی کے لیے چند ہزار روپے ماہوار کے خرچ کی اہمیت کیا تھی ؟ اُن ہی دِنوں اِسلام آباد میں طاہر القادری کی ملاقات اپنے ایک سابق اُستاد اور اپنے والد کے ایک دوست سے ہوئی، اُنہوں نے بے تکلفی کے ساتھ اِس سے سوال کیا کہ اُس نے یونیورسٹی کی نوکری کیوں چھوڑدی ؟ برا سا منہ بنا کرجواب دیا کہ اُس تنخواہ میں اُس کی گزربسر ڈھنگ سے نہیں ہوتی تھی، تمکنت اور طنطنے کے ساتھ اُس نے کہا کہ اُسے یونیورسٹی سے جو تنخواہ ملتی تھی اُس سے کہیں زیادہ روپے اُس کے باورچی خانے میں خرچ ہوجاتے ہیں ۔ بزرگ اُستاد نے حیرت سے کہا کہ اَبھی چند سال پہلے وہ اِن سے مالی مدد کی درخواست کر رہا تھا اُس نے اِلتجا کی تھی کہ اِسے کہیں سے وظیفہ دِلوادیا جائے ....... اَب اَچانک اُس کے مالی حالات اِتنے اچھے کیسے ہوگئے ....... اِس سوال پر وہ گھبرا گیا اور اُس نے بتایا کہ اَپنا جھنگ کا مکان بیچ کراُس نے کاروبار شروع کررکھا ہے ........ واقعی اُس نے مکان بیچ ڈالا تھا لیکن اُس کی آسودگی کا اِس سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میاں شریف نے اُس کے لیے سیمنٹ کی ایک ایجنسی حاصل کی تھی اور وہ اِس کے علاوہ مختلف طریقوں سے اِس کی مالی اِمداد