ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
جہیز : جہیز کے مروجہ طریقے اوراُس کے اَثرات کے مفاسد بھی تلک کے مفاسد سے کسی طرح کم نہیں ہیں، یہاں دوچیزیں اَلگ اَلگ ہیں : ایک تو لڑکی کے والدین کا اپنی خوشی سے بلا دِکھاوے، بلا جبر اور بلا مطالبہ کے وسعت کے مطابق اپنی بچی کو کچھ ضرورت کی چیزیں دینا ہے، اِس حد تک یہ اَمر بلاشبہ جائز ہے جیسا کہ منقول ہے کہ آنحضرت ۖ نے حضر ت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رُخصتی کے وقت کچھ چیزیں مرحمت فرمائی تھیں (بہشتی زیور ) لیکن دُوسری چیز جو آج کل رائج ہے وہ یہ کہ لڑکے والوں کی طرف سے صراحةً یا دَلالةً اِس کا مطالبہ ہوتا ہے کہ لڑکی زیادہ سے زیادہ جہیز لے کر آئے۔اور اگر بد نصیبی سے لڑکی شرط کے مطابق یا خواہش کے موافق جہیز نہ لے کر آئے تو سسرال میں اُس کے ساتھ سوتیلا سلوک برتا جاتا ہے، بات بات پر اُسے طعنے دیے جاتے ہیں اور گھر کے اَفراد کی طرف سے اُس کی توہین وتذلیل کی جاتی ہے ، یہ صورتِ حال تلک کی رسم سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے اور بڑی کم ظرفی اور چھچھورے پن کی بات ہے کہ محض اِس وجہ سے لڑکی کی ناقدری کی جائے کہ اُس کے والدین زیادہ جہیز دینے کی وسعت نہیں رکھتے۔ کثرتِ جہیز اور اُس کے دِکھاوے کی وباء آج ہمارے معاشرہ کی پستی کی نشانی بن چکی ہے، بے شمار لڑکیاں جہیز کا اِنتظام نہ ہونے کی بناء پر گھروں میں بیٹھ کر عمریں گنوا رہی ہیں، کتنی ہی شادیاں جہیز کی کمی کے باعث ناکام ہو چکی ہیں اور کتنے غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ جہیز کی تیاری میں سودی قرضوں کے بوجھ میں دبے پڑے ہیں اور اپنی جائیدادیں اور سرمایہ جات اِس قبیح رسم ورواج کی تکمیل میں گنوا چکے ہیں۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ مال ودولت سے محبت مسلمانوں کا اِمتیاز ہے یا اُن غیرمسلموں کا جن کے نزدیک دُنیوی اَسباب وسامان ہی مقصودِ زندگی ہے اور جن کے یہاں جہیز کی کمی پر عورتوں کا خود جل جانا پرانا معمول ہے۔ اگر ہمارے معاشرہ کی بھی یہی صورتِ حال رہی تو خدانخواستہ ہمارے اَندر بھی عورتوں کی خودسوزی کی وبا ء پھیل جائے گی۔( باقی صفحہ ٥٨ )