ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
کرتے تھے، بتدریج یہ مالی اِمداد سوا لاکھ روپے ماہوار تک جا پہنچی جس کا بڑا حصہ اِتفاق مسجد میں قائم ہونے والے مدرسے کے لیے تھا جسے ایک پرشکوہ نام دیا گیا تھا لیکن اُس کا کچھ حصہ محمد طاہر القادری کی ذات پر صرف ہوتا تھا۔'' (ص ٢٥ تا ٢٩) ایک اور جگہ تحریرہے : ''اوراَب ایک اور واقعہ ١٢ اکتوبر کا ذکر ہے، پریس کلب لاہور میں آٹھ بجے شب پرفیسر ڈاکٹر طاہر القادری پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے کہ اُن کا میڈیا سیکرٹری موبائل فون دونوں ہاتھوں میں تھامے اِنتہائی مودٔبانہ اَنداز میں ہال میں داخل ہوا اور کہا کہ قبلہ صاحب جی ایچ کیو سے آپ کے لیے فون ہے ! قبلہ بڑے متکبرانہ اَنداز میں کرسی سے اُٹھے اور موبائل فون کان کو لگاتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے اِس اِقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور پھر فون پر باتیں کرتے ہوئے ہال سے باہر نکل گئے۔ اِس دوران وہاں موجود ملکی و غیر ملکی صحافی فورًا اپنے اپنے موبائل فون چیک کرنے لگے جو مختلف کمپنیوں کے ساتھ اور رپورٹر ایک دُوسرے سے اِستفسار بھی کرتے رہے کہ کیا موبائل سروس چالو ہوگئی ہے ؟ لیکن کسی صحافی کے موبائل فون سے کوئی مثبت جواب نہ آیا۔ جیسے ہی قبلہ طاہر القادری واپس آئے، ایک صحافی نے اُنہیں مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ جناب موبائل سروس تو بند ہے آپ کو فون کیسے آگیا ؟ جس پر قبلہ کچھ پریشان ہوئے مگر چند لمحوں بعد کہا کہ یہ ''سپیشل'' کیس ہے جس پر وہاں موجود صحافی ہنسنے لگے اور پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعد ایک دُوسرے کہتے رہے کہ ''قبلہ'' کا ڈرامہ فلاپ ہوگیا۔ عوامی تحریک کے میڈیا سیل کے لوگ بھی اِس ضمن میں کسی صحافی کو کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔