ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
اِسلامی معاشرت ( حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری،اِنڈیا ) نکاح کرتے وقت کن باتوں کا خیال رہے ؟ تِلک : غیر مسلموں کی جن بیہودہ رسموں نے ہمارے معاشرہ میں جگہ پکڑی ہے اُن میں ایک نہایت رذیل اور گھٹیا رسم ''تلک'' کی ہے جس میں نہایت بے غیرتی، بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ لڑکے والے لڑکی والوں سے معقول رقم کے طالب ہوتے ہیں اور دُنیوی سازو سامان وغیرہ کی فرمائشوں کی تکمیل پر رشتہ موقوف رہتا ہے۔ اِس غیر اِنسانی اور نامعقول رواج نے آج سینکڑوں نہیں ہزاروں مسلم بچیوں اور جوان لڑکیوں کو گھروں میں بلا شادی گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ کتنے ایسے غریب ماں باپ ہیں جن کی راتوں کی نیندیں اِس فکر میں اُڑ جاتی ہیں کہ وہ کیسے اپنی عزیز بچیوں کے لیے تلک وغیرہ کا اِنتظام کریں اور اپنے فرض سے سبکدوشی حاصل کریں۔ تلک سے بڑھ کر لالچ، طمع اور کمینہ پن کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی، اِس رسم کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ سرا سر ظلم ہے، نااِنصافی ہے اور اِس کا نتیجہ کسی کے لیے بھی بہتر صورت میں بر آمد نہیں ہوسکتا، حدیث میں آتا ہے کہ ''جو شخص کسی عورت سے مال ودولت کی بنا پر نکاح کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سوائے اُس کے فقروفاقہ کے کسی شے میں اِضافہ نہیں فرماتا۔'' ( مجمع الزوائد ٤ /٢٥٤) ''تلک'' مسلم معاشرہ کے لیے ایک رِستا ہوا ناسور ہے۔ اِس رسم نے صرف لڑکی کے لیے ہی ذلت کے اَسباب فراہم نہیں کیے بلکہ یہ پوری قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اِسلام جیسا مقدس اور پاکیزہ دین اِن خرافات کا متحمل ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ کسی حاملِ دین وشریعت سے یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اِس رسم پر عمل کر کے اپنی قوم کے لیے بے عزتی کا سامان مہیا کرے۔