ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
معاملات میں نرمی اور رحم دِلی : مالی معاملات اور کاروبار میں جس طرح سچائی اور اِیمانداری پر اِسلام میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور اِس کو اعلیٰ درجہ کی نیکی اور ذریعہ قرب ِ خدا وندی قرار دیا گیا ہے، اِسی طرح اِس کی بھی بڑی ترغیب دی گئی ہے اور بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ معاملہ اور لین دین میں نرمی کا روّیہ اِختیار کیا جائے اور سخت گیری سے کام نہ لیا جائے، ایک حدیث میں ہے رسو ل اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا : ''اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو اُس بندے پر جو خرید و فروخت میں اور دُوسروں سے اپنا حق وصول کرنے میں نرم ہو۔'' ایک دُوسری حدیث میں ہے آپ ۖ نے اِرشاد فرمایا : ''جو آدمی اللہ کے کسی غریب اور تنگدست بندے کو (قرض کی اَدائیگی میں) مہلت دے دے یا (کلی یا جزوئی طور پر اَپنا مطالبہ) معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اُس کو قیامت کے دِن کی پریشانیوں سے نجات عطا فرمائے گا۔ ایک دُوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دِن اللہ تعالیٰ اُس کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا۔'' حضور ۖ کے اِن اِرشادات کا تعلق تو تاجروں اور اُن دولت مندوں سے ہے جن سے تنگ حال لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے قرض لے لیتے ہیں لیکن جو لوگ کسی سے قرض لیں خود اُن کو رسول اللہ ۖ اِس کی اِنتہائی تاکید فرماتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے وہ جلد سے جلد قرض اَدا کرنے کی کوشش کریں اورایسا نہ ہو کہ قرض دار ہونے کی حالت میں دُنیا سے چلے جائیں اور اللہ کے کسی بندے کا حق اُن کے ذمہ باقی رہ جائے ،اِس بارے میں آپ جتنی سختی فرماتے تھے اُس کا اَندازہ حضور ۖ کے اِن اِرشادات سے ہو سکتا ہے، ایک حدیث میں ہے آپ ۖ نے فرمایا کہ : ''اگر آدمی راہ ِ خدا میں شہید ہوجائے تو شہادت کے طفیل اُس کے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے لیکن اگر کسی کا قرض اُس کے ذمہ ہے تو اُس سے اُس کی گردن شہید ہوکے بھی نہ چھوٹے گی۔''