ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
اَب وہ ایک ہوسٹل کا سپرنٹنڈنٹ تھا اور گاہے بگاہے ایک مختصر حلقے میں درسِ قرآ ن دیتا ،وہ ہوسٹل کا اِنچارچ تھا لیکن اُسے نظم قائم کرنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، آئے روز اُس کے ہوسٹل میں اَفسوس ناک واقعات پیش آتے اور جب یونیورسٹی اِنتظامیہ کی طرف سے توجہ دِلائی جاتی تو وہ خطابت کا جادُو جگاتا اور کہتا کہ یہ اِسلامی جمعیة طلبہ کی یونین والے ہیں جو واقعات کو بڑھا چڑھا کرپیش کرتے ہیں ............. ایسے ہی ایک اَفسوس ناک واقعہ کے بعد اُس نے ملازمت سے اِستعفیٰ دے دیا ، اُسے اَندیشہ تھا کہ اَب اُسے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ اُس نے قلعہ گوجر سنگھ میں ایک مکان کرائے پر لیا اور ایک دوست سے مالی اِمداد کی درخواست کی، اُس سادہ دِل آدمی نے اپنے دوست کی مدد کی، وہ اُس کے مکان کا کرایہ اَدا کرتا اور اُس کے درسِ قرآن کی محفلوں کا اہتمام کرتا۔ اِس شخص کے توسط سے محمد طاہر کی ملاقات پنجاب کے وزیر خزانہ نواز شریف کے والد اور صنعت کار میاں محمد شریف سے ہوئی ............... اَب اُس کی مالی حالت سُدھرنے لگی اور جلدہی وہ قلعہ گوجر سنگھ سے سمن آباد کے ایک مکان میں منتقل ہوگیا۔ محمد طاہر نے جو ایک عرصہ سے طاہر القادری بن چکا تھا 1981 ء سے شادمان کالونی کی رحمانیہ مسجد میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، یہاں یونیورسٹی لاء کالج کے بعض طلبہ اور اَساتذہ ،اعظم کلاتھ مارکیٹ، برانڈرتھ روڈ اور اَکبری منڈی کے خوشحال اور خوش عقیدہ تاجروں کے علاوہ اِس آسودہ حال آبادی کے بعض لوگ بھی درس میں شریک ہوتے ...... اُن میں سے بعض اِس جو ان سال مفسر سے بری طرح متاثر تھے۔ ''میں نے اپنے زندگی کے دو سال اِس طرح گزارے کہ میں اِس کے ہر حکم کی تعمیل پر آمادہ رہتا تھا۔'' اُن لوگوں میں ایک نے بتایا، جواَب اُس کا نام سن کر بھڑک اُٹھتا ہے اور اُسے ایک جعل ساز قرار دیتا ہے۔