ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
کے فلک شگاف نعرے گونجتے تھے۔ وہ ایک کارکن کی بجائے ایک لیڈر کا کردار اَدا کرنا چاہتا تھا لیکن مواقع موجود نہ تھے، تاہم اُس کے اَندر کچھ کر دِکھانے کی آرزو شدید تر ہوتی جارہی تھی، اُن ہی دِنوں اپنی ایک ہم جماعت خاتون کے نام ایک محبت نامے میں اُس نے لکھا کہ وہ اُس سے شادی کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ ایک دِن وہ مولانا مودودی سے بڑا لیڈربنے گا،یہ خط آج بھی اُس خاتون کے پاس موجود ہے لیکن وہ اِس کی اِشاعت پر آمادہ نہیں۔ ایم اے اِسلامیات کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد محمد طاہر واپس جھنگ چلا گیا جہاں وہ گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل سے وابستہ ہوگیا لیکن یہاں اُس کا جی نہ لگا، اُس نے نوکری سے اِستعفیٰ دے دیا اور جھنگ شہر میں وکالت شروع کردی، دو سال اِس محاذ پر ڈَتا رہا لیکن وہ ایک ناکام وکیل تھا، وہ قانون کی کتابوں میں جی نہیں لگا سکتا تھا اور عدالت کے کٹہرے میں محض خطابت کا جادُو جگانے کی کوشش کرتا تھا۔ ١٩٧٧ء کی تحریک نظام ِ مصطفی ۖ نے اِسے لیڈری کرنے کا ایک موقع فراہم کیا، اُس نے کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہونے کے بجائے ایک علیحدہ تنظیم بنائی اور نوجوانوں کو بھٹو کے خلاف متحرک کرنے کی کوشش کی ............................ ٥ جولائی ١٩٧٧ء کی فوجی کارروائی نے اِس نوجوان کے لیے سیاسی مواقع کی بساط لپیٹ دی۔ ١٩٧٨ء میں لاہور چلا آیا اور یونیورسٹی لاء کالج میں پڑھانے لگا، اُس نے ١٩٧٩ء یا غالبًا ١٩٨٠ء میں پنجاب یونیورسٹی کے اَساتذہ کی اَنجمن میں صدارت کے عہدے کا اِنتخاب لڑا، حیرت اَنگیز بات یہ تھی کہ وہ بائیں بازو کے اَساتذہ کے پینل کی طرف سے میدان میں تھا، لیڈری اور شہرت حاصل کرنے کی مجنونانہ خواہش نے اُس پر غلبہ پالیا تھا وہ بری طرح ناکام رہا اور ہمیشہ کے لیے جماعت اِسلامی کا دُشمن ہوگیا جس کے حامیوں نے اِسے شکست سے دو چار کیا تھا