ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
فرید الدین قادری کے ہاں دو بیٹیوں کے بعد ایک بیٹے نے جنم لیا تو یہ اُس کے لیے روزِ مسرت تھا، اگرچہ اُس کے وسائل زیادہ نہ تھے لیکن اُس نے اپنے بچے کو لاڈ پیار سے پالا۔ اُس کی تعلیم کا آغاز گوجرہ روڈ جھنگ پر اِٹلی کے عیسائیوں کے مشنری سکول سے ہوا،وعظ کی مجالس، قوالیوں اور مزاروں پر وہ اِسے اپنے ساتھ لیے پھرتے، جہاں لوگ بزرگوں، صوفیوں اور درویشوں کے بارے میں طرح طرح کے حیرت اَنگیز قصے بیان کرتے تھے، غالباً اُن ہی مجالس میں طاہر کے دِل میں اِس خواب نے جنم لیا کہ وہ اِن لوگوں کی طرح کرامات دِکھانے اور دُوسروں کو حیران کردینے والا شخص بن جائے ............ جہاں تک اِس کے والد کا تعلق تھا، اپنی معمولی تعلیم اور شدید مذہبی اِحساس کے ساتھ وہ اِسے ایک شریف آدمی بنانا چاہتے تھے ............. ڈسپنسر کی آرزو تھی کہ اُس کا بیٹا ڈاکٹر بنے اور نوکری کی بجائے ایک آزاد آدمی کی آسودہ زندگی گزارے۔ اگر محمدطاہرڈاکٹر نہ بن سکا تو اِس کی وجہ یہ تھی کہ ایم بی بی ایس میں داخلہ کے لیے ایف ایس سی کے اِمتحان میں وہ مطلوبہ نمبر حاصل نہ کر سکا ۔ والد کی خواہش پر اُس نے دُوسری بار بھی اِمتحان دیا اور اَب کی بار اُس کے نمبر پہلے سے بہتر تھے لیکن پھر بھی وہ میرٹ تک نہ پہنچ پایا،وہ محنتی اور ذہین تھا لیکن اُسے سائنس خاص طور پر میڈیکل سائنس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ تو فنون اور خیالات کی دُنیا کا آدمی تھا۔ جب اُس نے پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اِسلامیات کے لیے داخلہ لیا تویہ بھٹو کا عہد ِاِقتدار تھا، ملتان کا جاوید ہاشمی حکومت دُشمن طلبہ سیاست پر چھایا ہوا تھا اور پنجاب یونیورسٹی میں اِسلامی جمعیت کا طوطی بولتا تھا۔ محمد طاہر نے جاوید ہاشمی کی اِنتخابی مہم میں خاصی سرگرمی سے حصہ لیا، وہ اِسلامی جمعیت طلبہ کے جوش و خروش سے لبریز جلوسوں کو مبہوت ہو کر دیکھتا رہا جن میں ''سیّدی مرشدی مودودی مودودی''