ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
''.........لیکن اِنسانوں کا تجسس دروازے کھولتا ہے اور حقائق منکشف ہوتے ہیں، لہٰذا آہستہ آہستہ بتدریج، رفتہ رفتہ اَخبار نویسوں، سیاسی کارکنوں اور مذہبی پارٹیوں کے حامیوں کا تجسس بروئے کار آنے لگا......وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ آدمی دَرحقیقت کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے اِس کا بچپن کہاں گزرا ہے ؟ اُس نے کب اور کہاں خواب دیکھنا سیکھے، دین سے اُس کے بلندبانگ شغف کی حقیقت کیا ہے ؟ شریف خاندان سے اُس کے تعلق کی نوعیت کیا رہی ہے، اُس نے اَب تک زندگی کیسے گزاری ہے، اُس کی عادات و مشاغل کیا ہیں ؟ وہ کس طرح کے شب و روز بسر کرتا ہے ، ہزاروں لوگ اُس پر فدا کیوں ہیں ؟ اُس پر وسائل کی بارش کہاں سے ہو رہی ہے اور وہ کس دِن کا سپنا دیکھ رہا ہے ؟ محمدطاہر کا تعلق جو اَب خود کو قائد ِ اِنقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کہلوانا پسند کرتا ہے، جھنگ کے ایک غریب خاندان سے ہے، اُس کے والد فرید الدین گڑھ مہاراجہ میں ضلع کونسل کے مختصر سے شفاخانہ میں ڈسپنسر کے طور پر کام کرتے تھے اُنہوں نے طب کی کچھ باقاعدہ اور کچھ بے قاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ ایک مذہبی آدمی تھے بریلوی مکتب کے ایک راس العقیدہ مسلمان .......... وہ قوالیاں سنتے، مزاروں پر جاتے اور اپنی بچت زیارتوں کے لیے بچا کر رکھتے تھے ......... وہ حج کے علاوہ ایک سے زیادہ بار عہد اَوّل کے جلیل القدر مسلمانوں کے مزاروں پرفاتحہ پڑھنے اور برکت حاصل کرنے کے لیے اِیران اور عراق گئے ...........مولانا رُوم کے مزارپر حاضری دینے کے لیے اُنہوں نے ایک بار خاص طور پرترکی کا سفرطے کیا .......... اُن کے پاس اِتنے وسائل کہاں سے آتے تھے ؟ فرید الدین قادری کوقریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ بھلا مانس آدمی کفایت شعار واقع ہوا تھا اور گردو پیش کے زمینداروں کے لیے قوت بخش داوئیں تیار کرتا تھا اور وہ اِس کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے۔