ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
متعلق ہیں ۔''(آلاتِ جدیدہ کے شرعی اَحکام ص١٤٢، طبع مکتبہ رضوان شاہ دہلی) اِسی طرح حضرت مولانا مفتی رشید اَحمد صاحب ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: '' اِس کو عکس کہنا بھی صحیح نہیں، اِس لیے کہ عکس اَصل کے تابع ہوتا ہے اور یہاں اصل کی موت کے بعد بھی اُس کی تصویر باقی رہتی ہے۔'' ( احسن الفتاوی:٩/٨٩) دُوسری جگہ مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ''تصویر اور عکس دو بالکل متضاد چیزیں ہیں، تصویر کسی چیز کا پائیدار اور محفوظ نقش ہوتا ہے، عکس ناپائیدار اور وقتی نقش ہوتا ہے، اَصل کے غائب ہوتے ہی اُس کا عکس بھی غائب ہو جاتا ہے ، ویڈیو کے فیتے میں تصویر محفوظ ہوتی ہے جب چاہیں جتنی بار چاہیں ٹی وی کی اسکرین پر اُس کا نظارہ کر لیں اور یہ تصویر تابع اَصل نہیں بلکہ اُس سے بالکل لا تعلق اور بے نیاز ہے، کتنے لوگ ہیں جو مرکھپ گئے، دُنیا میں اُن کا نام ونشان نہیں مگر اُن کی متحرک تصاویر ویڈیو کیسٹ میں محفوظ ہیں، ایسی تصویر کو کوئی بھی پاگل عکس نہیں کہتا، صرف اِتنی سی بات کو لے کرکہ ویڈیو کے فیتے میں ہمیں تصویر نظر نہیں آتی، تصویر کے وجود کا اِنکار کر دینا کھلا مغالطہ ہے۔'' ( احسن الفتاوی ٨/٣٠٢) حضرت مولانا محمدیوسف صاحب لدھیانوی کا ایک فتوی ''تصویر اور سی ڈی کے شرعی اَحکام'' میں اِن الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے : '' ٹی وی اور ویڈیو فلم کا کیمرہ جو تصویریں لیتا ہے وہ اگرچہ غیر مرئی ہیں لیکن تصویر بہرحال محفوظ ہے او راِس کو ٹی وی پر دیکھا اور دِکھایا جاتا ہے اِس کو تصویر کے حکم سے خارج نہیں کیا جاسکتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے تصویر بنانے کے فرسودہ نظام کے بجائے سائنسی ترقی نے تصویر سازی کا ایک دقیق طریقہ اِیجاد کر لیا ہے، تصویر تو حرام ہی رہے گی۔'' (تصویر اور سی ڈی کے شرعی احکام :ص٩٤ ) قدیم زمانے میں تصویر ہاتھ سے بنتی تھی پھر کیمرے کی اِیجاد نے اُس قدیم طریقے میں ترقی