ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
|
وفعل کے عینی شاہد ہیں، اِن حضرات نے بھی تصویر سے متعلق تمام اَحادیث سے یہی مفہوم اَخذ کیا ہے کہ یہ اِرشادات ہر قسم کی تصاویر سے متعلق ہیں اور ہمیشہ کے لیے ہیںچنانچہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے نصارٰی کی دعوت یہ فرماکر رَد کر دی کہ تمہارے یہاں تصویریں ہوتی ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت اَبو البیاج اَسدی کو بھیجا کہ شہر میں تمام تصاویر مٹادیں اور فرمایا کہ مجھے بھی آپ ۖ نے اِس مہم پر بھیجا تھا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ ایک مکان میں تصویر دیکھ کر دروازے سے لوٹ آئے۔ ( یہ سب واقعات بخاری ومسلم میں مذکور ہیں) حضراتِ اَکابر کی تصریحات سے بھی یہی تائید ہوتی ہے کہ کسی بھی طریقے سے تصویر کھینچی جائے، وہ تصویر ہی کے حکم میں ہے اور اُس پر تصویر ہی کے اَحکام مرتب ہوں گے چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی بانی دارُالعلوم کراچی عکس اور فوٹو کے درمیان فرق کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ''سب سے بڑا فرق دونوں میں یہی ہے کہ آئینہ وغیرہ کا عکس پائیدار نہیں ہوتا اور فوٹو کا عکس مسالہ لگا کر قائم کر لیا جاتا ہے پس وہ اُسی وقت تک عکس ہے جب تک اُسے مسالے سے قائم نہ کیا جائے اور جب اِس کو کسی طریقے سے قائم وپائیدار کر لیا جائے وہی تصویر بن جاتا ہے۔'' (آلاتِ جدیدہ کے شرعی اَحکام ص ١٤١، طبع مکتبہ رضوان شاہ ،دہلی) دُوسری جگہ مفتی اعظم محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں : ''حاصل یہ ہے کہ عکس جب تک مسالہ وغیرہ کے ذریعے سے پائیدار نہ کر لیا جائے اُس وقت تک وہ عکس ہے اور جب اُس کو کسی طریقے سے قائم وپائیدار کر لیا جائے تو وہی تصویر بن جاتا ہے اور عکس اپنی حد سے گزر کر تصویر کی صورت اِختیار کرے گا، خواہ وہ مسالے کے ذریعے ہو یا خطوط ونقوش کے ذریعے او رخواہ یہ فوٹو کے شیشے پر ہو یا آئینہ وغیرہ شفاف چیزوں پر، اِس کے سارے اَحکام وہی ہوں گے جو تصویر کے