ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
اُنہوں نے اُس بادشاہ کا نام بتایا، نہ سن کا ذکر کیا۔ اَب اپنے باپ کو ڈاکٹر مشہور کرنے والا ڈاکٹر طاہر القادری اِعتراف کر رہا ہے کہ اُس کا باپ ڈسپنسر تھا، ڈاکٹر نہیں تھا مگر کیا کیجیے جھوٹ کی عادت جھوٹ ظاہر ہونے پر بھی بدلی نہیں۔ ڈھٹائی کی حدہے کہ جسے بیان کرتے ہوئے قادری صاحب کہتے ہیں کہ وہ ایک غیر ملکی یونیورسٹی میں ڈاکٹری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے رہے اَب تو غیر ملک کا نام ظاہر کیا اور نہ یونیورسٹی کا نام لیا اور بات پھر وہیں آکررُکی کہ اُنہوں نے ڈاکٹری کی سند حاصل نہیں کی تھی۔ تو قادری صاحب کو آخر اِس جھوٹ کا فائدہ کیا حاصل ہوا جبکہ بات وہی رہی جوکہ ہے،ہاں اَلبتہ قادری صاحب کے مرید فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اگر وہ چاہیں تو ؟ اُس سے دامن چھڑا کر۔'' ( ص : ٢٦٢ ) ''طاہرا لقادری کی ڈگریاں '' کے زیر عنوان تحریر ہے : ''نقطہ نظر'' کے تحت ٢٩ دسمبر ١٩٩٩ء کی اِشاعت ''خبریں'' میں ایک کالم چھپا ''ڈاکٹر طاہر القادری پر اِعتراضات کا محاکمہ'' مجھے اِس کالم کے مندرجات سے کوئی غرض قطعًا نہیں اَلبتہ ایک غلط فہمی کا اِزالہ ضرور چاہتاہوں۔ اِس کالم میں ڈاکٹر صاحب موصوف کی فکری خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موصوف کی کوئی پانچ ہزار مختلف موضوعات پرلکھی ہوئی کتب کے صلے میں اے بی آئی (A.B.I) اور آئی بی سی (I.B.C) نے اِنہیں International Man of Year اور Hall of Fame Outstanding Man of 20th Centuryقرار دیا ہے ۔ اِنٹر نیشنل بائیو گرافیکل سنٹر (کیمبرج اِنگلینڈ CB2-3QP )ایک کاروباری پبلشنگ اِدارہ ہے جس کا منصوبہ محض یہ ہے کہ یورپ سے متاثرہ مغلوب اَقوام کے نمود پسند لوگوں کی نفسیات سے فائدہ اُٹھاکر اُنہیں بلیک میل کیا جائے، یہ نہ کوئی مستند تحقیقی اِدارہ ہے ، نہ کوئی یونیورسٹی ہے اور نہ کوئی مجلس معارف ہے، یہ محض اور محض