ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2014 |
اكستان |
مذکورہ پریس کانفرنس میں قبلہ طاہر القادری نے صحافیوں کو چونکا دینے کے لیے یہ بھی کہا کہ آپ کے لیے ایک نئی خبر ہے ملک میں مارشل لاء لگ گیا ہے جو کہ آج تک نہیں لگا۔ ١٢ اَکتوبر کو پریس کانفرنس میں عوامی تحریک کے میڈیا سیل اور بعض رہنماؤں کے مطابق طاہر القادری مستقبل کے نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے پریس کانفرنس کر رہے تھے حالانکہ اُس وقت فوج نے مکمل طور پر ٹیک اوور بھی نہیں کیا تھا مگر علامہ صاحب کی مثال ایسی ہے کہ ''مدعی سست گواہ چست'' قبلہ طاہر القادری صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے منہاج القرآن سے ایک پائی تک نہیں لی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کا ایسا کون سا خفیہ کار وبار ہے یا اُن کے پاس ایسا کون سا الہ دین کا چراغ ہے جس کا مظہر ہیں اُن کے فُلی ائیرکنڈیشنڈ اور اِنتہائی قیمتی مخملی قالینوں سے آراستہ دفاتر، اِنتہائی قیمتی گاڑیاں، چاق و چوبند محافظ، قیمتی فون، اَخباری اِشتہارات اور مخصوص چہیتے صحافیوں کو باہر کے ملکوں کی سیر، عمرے اور تحفے تحائف ! آخر اُن کے پاس اِتنی دولت کہاں سے آئی ؟ (روزنامہ خبریں لاہور، ١٧ جنوری ٢٠٠٠ئ) ۔ (ص : ٢٢١ ، ٢٢٢ ) ''ایک اور جھوٹ کااِنکشاف'' کے تحت دُوسری جگہ تحریر ہے : ''اِس سوال پر کہ آیا اُن کے والد ڈسپنسر تھے ؟ تو طاہر القادری نے کہا کہ وہ غیر ملکی یونیورسٹی میں ڈاکٹر ی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے رہے تاہم اُنہوں نے ڈاکٹری کی سند حاصل نہیں کی تھی۔ اپریل ١٩٨٩ء کے قومی ڈائجسٹ میں طاہر القادری کا ایک اِنٹر ویو شائع ہوا تھا جس میں اُنہوں نے اپنے باپ کو ڈاکٹر قرار دیا پھر یہ دعویٰ کیا کہ اُنہوں نے سعودی بادشاہ کا علاج کیا جس کے علاج سے دُوسرے ڈاکٹر عاجز آگئے تھے، اَب نہ تو