ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2014 |
اكستان |
|
وہ شجاع و بہادر نہیں ہوسکتا۔ تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن سے اِس حقیقت کا اِظہار ہوتا ہے کہ فطرت نہیں بدلا کرتی خواہ اِنسان کی فطرت ہو یا حیوان کی۔ ایک واقعہ ہم نے اپنے اِبتدائی طالبعلمی کے زمانے میں پڑھا تھا جی چاہاکہ نذرِ قارئین کیا جائے ملاحظہ فرمائیے : ''کسی بڑھیا کے ہاتھ ایک بھیڑیے کا چھوٹا بچہ لگ گیا، وہ اُسے گھر لے آئی اور گھر میں جو بکری تھی اُس کے دُودھ سے اِس کی پرورش کرنے لگی، بھیڑیے کا بچہ بڑا ہوا تو اُس نے بڑھیا کی بکری کو مارڈالا۔ اُس پر بڑھیا نے یہ شعر کہے (اور اپنے غم کا اِظہار کیا)۔'' قَتَلْتَ شُوَیْھَتِیْ وَفَجَعْتَ قَلْبِیْ وَاَنْتَ لِشَاتِنَا اِبْن رَبِیْب غُذِیْتَ بِدَرِّھَا وَغَدَرْتَ فِیْھَا فَمَنْ اَنْبَاکَ اَنَّ اَبَاکَ ذِیْب اِذَا کَانَ الطِّبَاعُ طِبَاعَ سُوْئٍ فَلَا اَدَب یُّفِیْدُ وَلَا اَدِیْب ( روضة الادب فی تسہیل کلام العرب ص ٨٩ ) '' تونے میری پیاری بکری کو مار کر میرا دِل دُکھا دیا حالانکہ تو ہماری بکری کا لے پالک بیٹا تھا، تجھے اُس کے دُودھ سے غذا دی گئی تھی پھر اُسی کے معاملہ میں تونے دھوکہ دے دیا، تجھے یہ کس نے بتایا تھا کہ تیرا باپ بھیڑیا تھا، بات یہ ہے کہ جب طبیعت (فطرتًا) بری طبیعت ہو تو پھر نہ کوئی اَدب فائدہ دیتا ہے نہ کوئی اَدیب۔ '' ایک واقعہ حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے موقع کی مناسبت سے وہ بھی ذکر کیا جاتا ہے ،حضرت فرماتے ہیں : ''ایک حکایت یاد آئی، ایک بادشاہ نے سال بھر تک ایک بلی کو تعلیم دی کہ وہ سر پر چراغ رکھ کر کھڑی رہتی اور روشنی میں بادشاہ کام کرتا رہتا گویا زندہ چراغ ہوگیا،