کے نصاب میں اس نوعیت کی تبدیلی نہ کی جائے کہ اصل مقصد ہی فوت ہوجائے جیساکہ شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچے کو انہی مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اس طرح ہوگاجس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔ (ماہنامہ دارالعلوم دسمبر ۹۴ بحوالہ دینی مدارس)
اسی طرح مشہور ومعروف عالم دین علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے فرمایا: ہم کو یہ صاف کہنا ہے کہ عربی مدرسوں کی جتنی ضرورت آج ہے، کل جب ہندوستان کی دوسری شکل ہوگی اس سے بڑھ کر ان کی ضرورت ہوگی، وہ ہندوستان میں اسلام کی بنیاد اور مرکز ہوں گے، لوگ آج کل عہدوں اور ملازمتوں کے پھیر اور ارباب اقتدار کی چاپلوسی میں لگے ہوں گے اور یہی دیوانے ملا آج کی طرح کل بھی ہوشیار ہوں گے۔ اس لیے یہ مدرسے جہاں بھی ہوں جیسے بھی ہوں ان کو سنبھالنا اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فرض ہے۔ (ماہنامہ فکر ولی اللہ مارچ ۲۰۰۳)۔
مدارس کی چند اہم خدمات:
مدارس اسلامیہ کی درجنوں خدمات ہیں یہاں صرف ایک درجن خدمات پیش ہیں: