رہنمائی کے ساتھ اس بات کی کوشش وفکر کرنا ہے کہ امت محمدیہ کا ہر ہر فرد اخروی زندگی میں کامیابی حاصل کرے۔ اخروی زندگی کو نظر اندار کرکے ڈاکٹر یا انجینئر یا ڈیزائنر بنانا مدارس کے قیام کا مقصد نہیں۔ جس طرح دنیاوی تعلیم میں بھی انجینئرنگ کرنے والے طالب علم کو میڈیکل کی تعلیم نہیں دی جاتی، وکالت کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کو نقشہ بنانا نہیں سکھایا جاتا، کیونکہ میدان مختلف ہیں، اسی طرح قرآن وحدیث کی تعلیم میں تخصص کرنے والے طالب علم کو انگریزی وحساب وسائنس وغیرہ کے سبجیکٹ ضمناً ہی پڑھائے جاسکتے ہیں۔ دوسرا طبقہ بھی غلط سوچ رکھتا ہے کیوں کہ مدارس کے بنیادی مقصد (قرآن وحدیث کی تعلیم) پر قائم رہتے ہوئے زمانہ کی ضرورت اور اس کے تقاضوں کے مطابق بعض علوم کا حذف واضافہ کیا جانا چاہئے۔
ان دونوں نقطۂ نظر کے درمیان ایک معتدل نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ مدارس اسلامیہ کو موجودہ رائج نظام کے تحت ہی چلنا چاہئے، یعنی علوم قرآن وسنت کو ہی بنیادی طور پر پڑھایا جائے اور ظاہر ہے کہ قرآن وحدیث کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا قرآن وحدیث کی وہی کتابیں پڑھائی جائیں جن کے تعلیم وتعلم کا سلسلہ سینکڑوں سالوں سے جاری ہے، مگر تفسیر قرآن، شرح حدیث اور فقہ وغیرہ پر کچھ کتابیں دور حاضر کے اسلوب میں از سر نو مرتب کرکے شامل کی جائیں، نیز نحو وصرف وعربی ادب وبلاغت پر آسان ومختصر کتابیں تحریر کی جائیں، منطق اور فلسفہ جیسے علوم کی بعض کتابوں کو حذف کرکے انگریزی، حساب اور کمپیوٹر جیسے جدید علوم پر مشتمل کچھ کتابیں نصاب میں شامل کی جائیں۔ غرضیکہ علوم کتاب وسنت کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے تقاضائے وقت کے مناسب بعض علوم وفنون کا اضافہ کرلیا جائے، لیکن مدارس