۱) قرآن وحدیث کی خدمت میں مدارس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے ، برصغیر میں قرآن وحدیث کی مختلف طریقوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ خدمت انجام دینے میں انہیں مدارس اسلامیہ کا رول ہے اور یہ وہ شرف ہے جو کسی اور ادارہ کو نصیب نہیں ہوا، اگر یہ کہا جائے کہ برصغیر میں مدارس اسلامیہ کے وجود کے بغیر علوم قرآن وحدیث کا فروغ ناممکن تھا تو بالکل مبالغہ نہ ہوگا ۔
۲) انہی مدارس کے فارغین میں وہ لوگ بھی ہیں ، جنہوں نے اپنی دور اندیشی اور بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کی عصری تعلیم کے لیے اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ، چنانچہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد’’شیخ الہند‘‘ مولانا محمود الحسن ؒنے ہی رکھی تھی، مولانا محمد علی جوہرؒ نے اس ادارہ کی نشوونما میں اہم رول ادا کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لئے علامہ شبلی نعمانی ؒکی عظیم خدمات کو تاریخ نظرانداز نہیں کرسکتی۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علماء ہیں جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کی دینی تعلیم کی طرف توجہ دی ، بلکہ ان کو عصری تعلیم سے بھی آراستہ کرنے کے لیے غیر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کو قائم کیا۔ عصر حاضر میں مفکر ملت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم نے ’’رحمانی۳۰‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے ، یہ ادارہ روز اول سے ہی اپنے عزائم ومقاصد کی طرف کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے چنانچہ بے شمار طلبہ اس ادارہ سے استفادہ کرکے اپنے ملک اور قوم کا نام روشن کررہے ہیں۔ اسی طرح مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کی خدمات تعلیم سے ادنی سی واقفیت رکھنے والے شخص سے بھی چھپی ہوئی نہیں ہیں۔
۳) مدارس کا ایک خاص امتیاز یہ ہے کہ اس نے اپنا فیض پہنچانے میں کسی خاص طبقہ یا کسی