علم اصول فقہ ، علم میراث ، علم عقائد، علم نحو ، علم صرف ، علم منطق ، علم فلسفہ، علم بلاغت اور زمانہ کی ضرورت کے مطابق بعض دیگر علوم۔
مدارس کے نصاب میں تبدیلی:
وقتا ً فوقتاً مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی بات اٹھتی رہتی ہے، اس پر غور وخوض کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ مدارس میں نصاب کی تبدیلی کے لیے عموماً تین موقف ہیں:
ایک موقف ان حضرات کا ہے جو اس نصاب کو موجودہ زمانے میں بے کار سمجھتے ہیں ، ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ مدارس کے نصاب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے جس میں عصری علوم اس حد تک شامل کیے جائیں کہ مدارس کے فضلاء کالج اور یونیورسٹیوں کے فارغین کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر دنیاوی زندگی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ ودو میں لگ جائیں ۔ یہ عموماً وہ حضرات ہیں جنہوں نے مدارس میں نہ تو باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی مدارس کے نصاب سے بخوبی واقف ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ حضرات ایک یا دو فیصد طلبہ جو مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی دنیاوی تعلیم کی تو فکر کر رہے ہیں ، مگر ۹۸ یا ۹۹ فیصد بچے جو عصری تعلیم کے شعبوں میں ہیں ان کی دینی تعلیم وتربیت کی کوئی فکر نہیں کرتے۔
ایک طبقہ وہ ہے جو اس نصاب میں ادنی سی تبدیلی بھی گوارہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ جو لوگ تبدیلیوں کا مشورہ دیتے ہیں ان کی رائے پر توجہ بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی نقطۂ نظر غلط ہیں، پہلا اس لیے کہ مدارس کی تعلیم کا بنیادی مقصد علوم قرآن وسنت کی ترویج، اشاعت اور حفاظت ہے، نیز امت محمدیہ کی دنیاوی زندگی میں