سے کرائی جاتی ہے۔ شریعت کی تعلیمات کے مطابق ان کی تربیت اور ذہن سازی کی جاتی ہے اور ان کو معاشرت کے اصول وآداب بھی بتائے جاتے ہیں تاکہ مدرسہ سے فارغ ہونے کے بعد گھر اور سماج میں ایک باوقار اور مثالی زندگی گزار سکیں۔
۱۱) مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ اس قدر جامع ہوتا ہے کہ اس کو مزید سمجھنے کے لئے طلبہ کو الگ سے ٹیوشن کی ضرورت پیش نہیں آتی اور اگر درس کے دوران کوئی مسئلہ سمجھ میںنہیں آتا تو طلبہ بعد میں بھی بغیر کسی معاوضہ کے اساتذہ سے رجوع کرلیتے ہیں۔
۱۲) برصغیر میں قائم مدارس ومکاتب میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ روزگار سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ کم تنخواہ کے باوجود قناعت کرتے ہیں۔
غرضیکہ علماء کرام نے مساجد ومدارس ومکاتب کے ذریعہ بچہ کی ولادت کے وقت کان میں اذان دینے سے لے کر نماز جنازہ پڑھانے تک امت مسلمہ کی دینی وتعلیمی وسماجی رہنمائی کے لئے ایسی خدمات پیش کی ہیں کہ ایک مسلمان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو ان خدمات سے مستفیض نہ ہوا ہو۔
عصری درس گاہوں میں دینی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری:
جیساکہ ذکر کیا گیا کہ اسلام نے عصری علوم کو حاصل کرنے سے منع نہیں کیا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ آج جو طلبہ عصری درس گاہوں سے پڑھ کر نکلتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد دین سے بے بہرہ لوگوں کی ہوتی ہے اور ایک قابل لحاظ تعداد تو دین سے بیزار لوگوں کی ہوتی ہے۔ اس کی ذمہ داری علماء کرام پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج بھی مسلم سماج پر علماء