دُعا مؤمن کا عظیم ہتھیار
دعا کی حقیقت:
دُعا کے لغوی معنی ہیں پکارنا اور بلانا، شریعت کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے حضور التجا اور درخواست کرنے کو دعا کہتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہُ مُنِیْباً اِلَیْہِ (سورۃ الزمر: ۸) جب انسان کوتکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کوپکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ حضور اکرم ﷺنے دعا کو عبادت کی روح قرار دیا ہے: الدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (ترمذی ۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء) یعنی دُعا عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے۔ نیز حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: الدُّعَائُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ (ترمذی۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء) دُعا عین عبادت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام وصالحین کی دعاؤں کا ذکر اپنے پاک کلام (قرآن کریم) میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔
دُعا کی ضرورت:
ہر شخص محتاج ہے اور زمین وآسمان کے سارے خزانے اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہیں، وہی سائلوں کوعطا کرتا ہے، ارشاد باری ہے: وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَائُ (سورۃ محمد:۳۸) اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو۔ انسان کی محتاجی اور فقیری کا تقاضہ یہی ہے کہ بندہ اپنے مولیٰ سے اپنی حاجت وضرورت کو مانگے اور اپنے کسی بھی عمل کے ذریعہ اللہ سے بے نیازی کا شائبہ بھی نہ ہونے دے کیونکہ یہ مقام عبدیت اور دعا کے منافی ہے۔